نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت جھٹلانے کے لئے ڈھٹائی کی حد تک متعصب یا جاہل ہونا لازمی ہے۔ اس کی ”اثرپذیری“ کو تاہم دنیا کے کئی محققین نے ٹھوس تناظر میں رکھ کر جانچنے کی کوشش کی ہے۔اس ضمن میں لکھی چند کتابوں اور علمی مضامین کو میں نے بہت غور سے پڑھا ہے۔ کلیدی پیغام یہ دریافت کیا کہ سوشل میڈیا پرحاوی نظر آتا ہیجان سیاسی میدان میں بھرپور حصہ لینے کا متبادل نہیں۔ٹویٹر پر چھائے ”ٹرینڈز“ پر کامل انحصار درست پیغام نتائج اخذ کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا۔
اتوار کی رات سے ہمارے سوشل میڈیا پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ لوگ حیران ہیں کہ عمران خان صاحب کی جماعت کراچی میں ہوئے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی بدولت تیسرے مقام پر کھڑی کیوں نظر آئی۔مزید حیرت کا اظہار اس امر کی بابت ہورہا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے مخالفین کو پچھاڑنے میں کیسے کامیاب ہو گئی۔
پیپلز پارٹی کے بارے میں جس حیرت کا اظہار ہو رہا ہے اس کا باعث رواں صدی کے آغاز سے روایتی اور سوشل میڈیا کے ذریعے تشکیل دیا وہ ماحول ہے جو ”شہرقائد “ کو ”اندورن سندھ“ سے کامل کٹا ایک جزیرہ دکھاکر پیش کرتا ہے۔اس ماحول کی بنیاد نسلی بنیادوں پر ابھاری وہ سیاسی تفریق ہے جو 1980ء کی دہائی میں مصیبت کی طرح نازل ہوئی تھی۔
بارہا اس کالم میں التجا کرتا رہا ہوں کہ کراچی کے سیاسی منظر نامے کا درست تجزیہ کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اس شہر میں آبادی کے تناسب سے زمین پر موجود حقائق کو ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ پاکستان کے دیگر شہروں سے اس شہر کی جانب ہو رہی مسلسل نقل مکانی نے اس ضمن میں ”نئے حقائق“ تشکیل دیے ہیں۔میں ان کی تفصیلات میں الجھا تو کالم کے بجائے کتاب لکھنا پڑے گی۔فی الوقت ایک بنیادی حقیقت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اصل موضوع کی جانب لوٹنے کو ترجیح دوں گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ اگر سیاست دان موقعہ پرست ہوتا ہے تو ووٹروں کی اکثریت بھی ”موقعہ شناس“ بن جاتی ہے۔ 2008ء سے اہلیان کراچی کی کماحقہ تعداد بتدریج یہ ادراک کرنا شروع ہو گئی کہ صوبائی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا موثر متبادل میسر نہیں۔ کراچی کے شہری مسائل کے حل کے لئے جن وسائل کی ضرورت ہے ان پر صوبائی حکومت کا اجارہ ہے۔ اس کی سرپرستی کے بغیر صفائی ستھرائی جیسی بنیادی سہولتیں بھی فراہم ہو نہیں سکتیں۔ ”شہری حکومت“ بھی اگر پیپلز پارٹی کے حوالے کردی جائے تو صوبائی حکومت کو شہری مسائل کا حتمی ذمہ دار ٹھہرانا آسان ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے اس سوچ کو بروقت اور مناسب انداز میں بھانپنا شروع کردیا۔اس کے ایک جواں سال رہ نما بیرسٹر وہاب مقامی وسائل کے حل کے لئے متحرک ہوئے۔سوشل میڈیا پر اپنی کاوشوں کو مہارت سے نمایاں بھی کرتے رہے۔ روایتی میڈیا اس تناظر میں سعید غنی کو بھی ان کا ہمہ وقت شراکت دار دکھاتا رہا۔
اخبار کے لئے لکھے کالم کی محدودات جانتے ہوئے تاہم میں فقط اس ”حیرت“ کو زیر بحث لانا چاہ رہا تھا جس کا اظہار کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی ”شکست“ کی بابت ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر تواتر سے اٹھایا یہ سوال فطری اور منطقی ہے کہ گزشتہ برس کے اپریل سے عمران خان صاحب کی ”ہر دن بڑھتی مقبولیت“ کا جو چرچا روایتی اور سوشل میڈیا میں ہو رہا ہے اپنا ”جلوہ“ بلدیاتی انتخابات کے دوران دکھاکیوں نہیں پائی۔
ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا آغاز 2016ء سے شروع ہو گیا تھا۔ اپنے ”بانی“ کو ”عاق“ کردینے کے بعد یہ جماعت ”پاکستان“ کا لاحقہ لگا کر خود کو محب وطن ثابت کرنے میں مصروف ہوگئی۔ایم کیو ایم کی صفوں ہی سے ابھرے مصطفی کمال نے مگر ”پاک سرزمین پارٹی“ بناکر ان کی ”حب الوطنی“ کو جارحانہ انداز میں مشکوک بنانا شروع کر دیا۔”بہادر آباد“ اور ”کمال کی ہٹی“ کے مابین ہوئی تو تکار نے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو مزید منتشر کردیا۔ ”اس کی صفوں میں برپا انتشار کا تحریک انصاف نے 2018ء کے انتخابات کے دوران بھرپور فائدہ اٹھایا۔کراچی سے واحد اکثریتی جماعت کی صورت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔اگست 2018ء میں عمران حکومت کے قیام کے بعد مگر سوال یہ اٹھنا شروع ہو گیا کہ وفاقی حکومت ”کراچی کے مسائل“کے حل کے لئے کس قدر پرخلوص اور متحرک ہے۔مذکورہ تناظر میں تحریک انصاف نے اپنے حامیوں کو قطعاََ مایوس کیا۔
کراچی سے ابھرے دو وفاقی وزراء فیصل واوڈا اور علی زیدی ٹی وی ٹاک شوز میں فقط ”چور اور لٹیروں“ کی بھد اڑانے ہی میں مصروف رہے۔ وہ اس کی بدولت وزیر اعظم عمران خان کے چہیتے تصور ہونا شروع ہو گئے تو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے بنچوں پر موجود کراچی سے منتخب ہوئے بقیہ اراکین اسمبلی”کراچی کراچی“ کی دہائی مچاتے تقریباََ ہر اجلاس میں ہنگامہ آرائی کی کوشش کرتے۔متعد د بار انہوں نے اپنی نشستیں چھوڑ کر پیپلز پارٹی کے بنچوں پر بیٹھے اراکین اسمبلی پر حملہ آور ہونے کے مناظر بھی فراہم کئے۔ ٹی وی سکرینوں پر اس کی وجہ سے ”رونق“ تو لگ جاتی۔ ”شہر کراچی“ کے مسائل کے حل کے لئے مگر کوئی ٹھوس پیش رفت کی صورت فراہم نہ ہوتی۔
اندھی نفرت و عقیدت پر مبنی ”سیاست“نے پی ٹی آئی کے کراچی سے منتخب ہوئے اراکین اسمبلی کو اپنے دشمنوں کو ”چور و لٹیرا“ ثابت کرنے تک ہی محدودرکھا۔ ”اپنے حلقوں“ میں وہ ”ترقیاتی منصوبوں“ کو متعارف کروانے میں خاطر خواہ کردار ادا کرتے نظر نہیں آئے۔ کراچی میں ”گراس روٹ“ سیاسی عمل کو بھی متعارف اور توانا تر نہ بناپائے۔فقط یہ سوچ کر ہی خوش ہوتے رہے کہ عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ سے محروم کئے جانے کے بعد عوامی اجتماعات سے جو جارحانہ خطاب کرتے ہیں انہیں سننے اور دیکھنے کو ”ہزاروں خاندان“ بیوی بچوں سمیت کراچی کے ایک شاپنگ مال کے قریب شاہراہ پر نصب سکرینوں کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔ جی کو خوش رکھنے کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے بھول گئے کہ ”تحریکی ماحول“ اور ”انتخابی عمل“ اپنی سرشت میں قطعاََ دو مختلف اصناف ہیں۔سڑکوں پر نظر آتی ”محبت“ کوانتخابی عمل کے دوران فیصلہ کن ووٹوں میں بدلنا عوام سے براہ راست رابطے کا تقاضہ کرتا ہے جو متحرک سیاسی کارکن ہی یقینی بناسکتے ہیں۔تحریک انصاف کی کراچی میں ہوئی ”شکست“ سے مگرکہیں زیادہ اہم میرے لئے بلدیاتی انتخابات کے دوران نظر آیا ”ٹرن آﺅٹ“ ہے۔یہ 25فی صد سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔اس کے لئے مگر ایک اور کالم لکھنا پڑے گا۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر