اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اردو ادب کے مزاح نگار۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو ادب کے مزاح نگاروں کی فہرست بہت طویل نہیں۔ مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا، پطرس بخاری، شوکت تھانوی، شفیق الرحمان، رشید احمد صدیقی، کرنل محمد خان، فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی، کنہیا لال کپور، محمد خالد اختر، مجتبی حسین، یوسف ناظم، حاجی لق لق، ابراہیم جلیس، عطا الحق قاسمی، گل نوخیز اختر اور جی چاہے تو ان میں انور مقصود اور محمد یونس بٹ کے نام بھی شامل کرلیں۔ چند نام میں بھول رہا ہوں، ان کا اضافہ آپ کرلیں۔
لیکن ایسی کسی فہرست میں کبھی میں نے احمد اقبال کا نام نہیں دیکھا۔ حالانکہ ان کا نام پانچ سات بڑے مزاح نگاروں میں کیا جانا چاہیے۔ ان سے تعصب کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈائجسٹوں میں لکھتے رہے۔ اردو کے ادیبوں اور نقادوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ ڈائجسٹ اور جاسوسی ناول ادب کا حصہ نہیں۔ یہ فیصلہ کس قدر درست ہے، اس کا اندازہ سب رنگ اور ابن صفی کی تحریروں سے لگایا جاسکتا ہے۔
میں نے احمد اقبال کو 1988 میں دریافت کیا جب میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔ ہمارے خاندان میں عمومی طور پر ڈائجسٹ پڑھنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی۔ لیکن میری امی ڈائجسٹ پڑھتی تھیں اور میں نے بھی شروع میں لائبریری سے سسپنس ڈائجسٹ لے کر پڑھا۔ ممکن ہے کہ یہ سلسلہ چھوڑ دیتا لیکن ایک کہانی نے جکڑ لیا۔ اس کا نام تھا، گدھا کار۔ اس کے دو کرداروں بھورے ماموں اور کالے خاں نے خوب ہنسایا۔ اس کے بعد میں ہر ماہ بے چینی سے سسپنس کا انتظار کرتا۔ یہ کردار احمد اقبال نے تخلیق کیے تھے اور انھوں نے ان پر بیس بائیس یا شاید زیادہ کہانیاں لکھیں۔
ان کہانیوں کی وجہ سے میں ڈائجسٹ باقاعدگی سے پڑھنے لگا۔ دوسرے ڈائجسٹوں سے بھی آشنائی ہوئی۔ سب رنگ کی لت پڑی۔ سرگزشت شروع ہوا تو اس میں خط لکھنے لگا۔ جاسوسی ڈائجسٹ میں انعامی خط لکھا۔ آخر اس میں ملازمت مل گئی اور یوں محی الدین نواب، محمود احمد مودی، ایچ اقبال، اقلیم علیم، غلام قادر اور روبینہ رشید سے دفتر میں ملاقاتیں ہوئیں۔ حسام بٹ اور شبینہ رزاق رفیق کار تھے۔ شبینہ بعد میں ایڈیٹر انور فراز سے شادی کرکے شبینہ فراز بن گئیں۔ اس دفتر میں محسن بھوپالی، فراست رضوی اور کئی دوسرے ادیبوں شاعروں کو بھی دیکھا جو ڈائجسٹوں میں لکھتے تو نہیں تھے لیکن فراز صاحب سے ملنے آتے تھے۔
وہیں کئی بار احمد اقبال صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ کہانی دینے آتے تھے۔ اس وقت قسط وار کہانی شکاری چل رہی تھی۔ وہ ختم ہوئی تو مداری شروع ہوگئی۔ ان میں بھی شگفتہ مزاح ہوتا تھا۔ لیکن ایک نشست میں ختم ہوجانے والی کہانیوں کا میں دیوانہ تھا۔ ایک بات جو میں کہیں اور بھی لکھ چکا ہوں کہ احمد اقبال کی تحریر پڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک خاص کمپوزر ہی پڑھ لیتے تھے اور وہی کمپوزنگ کرتے تھے۔
میں کچھ عرصے بعد ڈائجسٹ چھوڑ کر ڈیلی جرنلزم میں چلا گیا۔ ایکسپریس گروپ میں کام کیا تو وہاں شام کے اخبار انصاف ٹائمز کے نیوز ایڈیٹر جاوید اقبال سے ملاقات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ وہ احمد اقبال صاحب کے بیٹے ہیں۔ بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے جنگ میں ملاقات ہوئی جو ان دنوں میگزین میں کام کرتے تھے۔ بعد میں وہ این جی او میں کام کرنے لگے تو انھوں نے مجھ سے ترجمے کا کچھ کام کروایا اور معاوضہ بھی دلوایا۔ احمد اقبال کے بھائی اخلاق احمد معروف افسانہ نگار اور اخبار جہاں کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان سے بھی نیازمندی رہی۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است، بلکہ آفتاب اقبال است۔
میرے پسندیدہ سلسلے کالے خاں بھورے خاں کی کہانیاں بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئیں۔ دونوں کتابوں پر میں نے احمد اقبال صاحب سے دستخط کروالیے اور انھیں قیمتی بنالیا۔ ان میں سے ایک کتاب میں نے آج کتب خانے والے گروپ میں پیش کی ہے۔ نئے سال پر منہ میٹھا کیجیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: