اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکا کا میڈیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔۔۔مبشرعلی زیدی

دونوں گروہوں کے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور ریڈیو اسٹیشنوں پر ایک دوسرے پر حملے جاری رہتے ہیں۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں کالی پیلی ٹیکسی کے ڈرائیور کسی سڑک پر، کسی چوراہے پر کھڑے رہتے تھے۔ پسنجر وہیں تک آتا تھا۔
اوبر ڈرائیور کہیں کھڑا نہیں رہتا۔ رائیڈ کی تلاش میں اسے حرکت میں رہنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی واشنگٹن میں گاڑی کھڑی رکھنا یعنی پارک کرنا مہنگا ہے، چلتے رہنا یعنی تیل جلانا سستا ہے۔
آف پیک ٹائم میں بعض اوقات آدھا پونا گھنٹا بھی رائیڈ نہیں ملتی۔ اس دوران کیا کریں؟ ریڈیو سنیے۔
واشنگٹن اور قرب و جوار میں درجنوں ایف ایم اور اے ایم اسٹیشن بھی ہیں۔ ایک ویب سائٹ پر ان کی تعداد 88 درج ہے۔ میری کار کا ریڈیو سب تو نہیں لیکن اٹھارہ بیس چینل پکڑ لیتا ہے۔
کراچی اور دبئی کے بھی ایف ایم چینل سنے ہیں۔ بیشتر ایک جیسے ہیں۔ مسلسل گفتگو اور گانے۔ کسی کسی پر ٹاپ آف دا آور ڈھائی منٹ کی خبریں۔ نصف شب کو ادب اور شاعری کی باتیں۔
ڈی سی کے ریڈیو چینل مختلف ہیں۔ موسیقی کے دسیوں چینل ہیں لیکن کسی پر صرف راک میوزک ملے گا، کسی پر کنٹری، کسی پر کلاسک، کسی پر کن ٹیمپوریری، کسی پر صرف مذہبی خطبے، کسی پر صرف خبریں۔ یہاں ملاوٹ نہیں ہوتی۔
میں خبروں کے دو چینل سنتا تھا۔ ایک کا نام ڈبلیو ٹی او پی ہے اور دوسرا بلوم برگ۔ ڈبلیو ٹی او پی میں رپیٹیشن بہت ہے۔ پندرہ منٹ کا بلیٹن جس کی اہم خبریں پوری شام یکساں رہتی ہیں۔ لیکن چونکہ لائیو ہوتا ہے اس لیے اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ باقی موسم اور ٹریفک کا احوال مسلسل بتاتے ہیں۔ موسم کراچی جیسا نہیں کہ دس مہینے درجہ حرارت نہیں بدلتا۔ یہاں دس منٹ میں دس ڈگری گر جاتا ہے۔ گھر سے درجہ حرارت دیکھ کر نکلنا پڑتا ہے۔
بلوم برگ شاندار چینل ہے۔ ریڈیو پر ایسا مواد ہے کہ بی بی سی ٹیلی وژن کا مقابلہ کرتا ہے۔ بے حد معلوماتی گفتگو اور بڑے لوگوں کے انٹرویوز پیش کرتا ہے۔
ہاں ایک اردو ہندی چینل بھی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ آواز ٹھیک سنائی نہیں دیتی۔ پتا نہیں اسٹوڈیو کی مشینیں خراب ہیں یا ٹرانسمیٹر۔ بولی ووڈ کے گانے سناتا ہے اور مقامی دیسی اشتہار چلاتا ہے۔ اس سے ہزار گنا اچھے دبئی کے ریڈیو اسٹیشن ہیں۔
امریکا کے معاشرے اور سیاست کی طرح اس کا میڈیا بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ڈیموکریٹس یعنی پروگریسو یعنی ترقی پسندوں اور ری پبلکنز یعنی کنڑویٹو یعنی قدامت پرستوں میں مسلسل تصادم ہے۔ ترقی پسند انڈیا پاکستان والے نہیں، جو کمیونسٹ یا سوشلسٹ ہوتے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام والے ترقی پسند ہیں۔ البتہ ری پبلکنز انھیں سوشلسٹ ہونے کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔
دونوں گروہوں کے اخبارات، ٹی وی چینلوں اور ریڈیو اسٹیشنوں پر ایک دوسرے پر حملے جاری رہتے ہیں۔ پروگریسو ریڈیو پر گفتگو اس طرح کی ہوتی ہے کہ دیکھیے صاحب، فلاں تقریب میں صدر ٹرمپ نے ماسک نہیں پہنا۔ کتنی بری بات ہے۔ صدر ایسا کرے گا تو عوام کو کیا پیغام جائے گا۔ ری پبلکنز سائنس کے دشمن ہیں۔
جواب میں کنزرویٹو ریڈیو پر سننے کو ملے گا، جناب عالی غضب خدا کا، بائیڈن کہتے ہیں کہ وہ پورے ملک میں ماسک لازم کردیں گے۔ انھیں کس نے اس کا اختیار دیا؟ ہماری مرضی، ماسک پہنیں یا نہ پہنیں۔ ڈیموکریٹس عوام کی آزادی کے دشمن ہیں۔
لوگ اشتہار دیکھنا سننا نہیں چاہتے۔ ڈبلیو ٹی او پی نے اس کا حل یہ نکالا کہ رپورٹر خبر پڑھتے پڑھتے اشتہار سنا دیتا ہے۔ کچھ اس طرح کہ ہائی وے آئی سکسٹی سکس پر ٹریفک کچھ سست ہے کیونکہ ایک کریش ہوا ہے۔ لیزبرگ پائیک پر ٹریفک معمول کے مطابق ہے۔ پنسلوانیا ایونیو کا ایک ٹریک چند گھنٹوں کے لیے بند ہے۔ اب آپ اپنی پسند کی ہونڈا کار براؤن آرلنگٹن سے سستے داموں خرید سکتے ہیں۔ نئے ماڈل آگئے ہیں، قسط سب سے کم۔ جیمز گرین ڈبلیو ٹی او پی نیوز۔
موسم کا حال میٹی او رولوجسٹ بتاتی ہے لیکن وہ بھی اس طرح کہ آج ڈی سی میں شام کو بارش ہوگی، ہوا بیس میل فی گھنٹا کی رفتار سے چلے گی، اس وقت ووڈبرج میں درجہ حرارت چالیس (فارن ہائیٹس) فئیرفیکس میں بیالیس اور ڈی سی میں اکتالیس ہے۔ ٹھنڈے موسم میں اچھی طرح پہن اوڑھ کر باہر نکلیں ورنہ طبیعت خراب ہوسکتی ہے۔ بخار ہوجائے تو سی وی ایس کا تھرمامیٹر استعمال کریں جو بالکل درست درجہ حرارت بتاتا ہے۔ جولی تھامسن ڈبلیو ٹی او پی نیوز۔

%d bloggers like this: