اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اسے کہنا کہ ’’اوبر‘‘ آگیا ہے!۔۔۔مبشرعلی زیدی

جیو میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ ہر سالگرہ پر مزے مزے کی ان ہاؤس رپورٹیں بنائی جاتی تھیں جو نشر نہیں کی جاتی تھیں۔ صرف دفتر کے عملے کی تفریح طبع کے لیے ہوتی تھیں۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے۔۔۔
سردی اتنی ہے کہ شاعر کو عرش صدیقی کی باقی نظم یاد نہیں۔ دس ڈگری پر کان برف ہوجاتے ہیں۔ پانچ ڈگری پر دانت بجنے لگتے ہیں۔ صفر کے نیچے خون جمنے لگتا ہے۔
واشنگٹن کے عام شہری جلد سوجاتے ہیں۔ بس وہ جاگتے رہتے ہیں جنھیں اوبر ڈرائیور کے رزق کا سبب بننا ہوتا ہے۔
آدھی رات کو ٹیکسی چلاتے ہوئے اچھے برے ہر طرح کے خیالات آتے ہیں۔ سو طرح کی کہانیاں یاد آتی ہیں۔ ذہن کے پروجیکٹر پر فلمیں چلنے لگتی ہیں۔
پتا نہیں آپ نے فلم کلر دیکھی ہے یا نہیں۔ 2006 میں جب ریلیز ہوئی تو ہم دبئی میں تھے۔ عرفان خان کا نام دیکھ کر ٹکٹ بک کروانے کے لیے سینما فون کیا۔ بکنگ کلرک نے بتایا کہ فلم تو اتر چکی۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ فلم کم از کم ایک ہفتہ تو چلتی ہے۔ دو دن میں کیسے اتر گئی۔ معلوم ہوا کہ فلم دبئی میں شوٹ ہوئی تھی۔ شہر میں قتل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔ دبئی والوں کو اپنے شہر کا ایسا تاثر قبول نہیں۔
بعد میں ہمارے دوست کامران عبدالمنان ایک کرکٹ سیریز کور کرنے گئے انڈیا گئے تو میں نے فرمائش کرکے کلر کی ڈی وی ڈی منگوائی۔
فلم میں عمران ہاشمی نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کا کردار ادا کیا ہے اور عرفان خان نے ان کے پسنجر کا۔
ہائے ہائے ہمارا عرفان خان مر گیا۔ کیسی کیسی فلمیں کرگیا یہ شخص۔ فلم کلر میں پسنجر کا کردار کیا اور پیکو میں ڈرائیور کا، جو دیپکا یعنی پیکو اور اس کے ابا امیتابھ کو ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچاتا ہے۔ اس میں امیتابھ کے پیٹ کا وہی حال ہے جو داستان امیر حمزہ میں عمرو عیار کی زنبیل کا ہے، یعنی اندر سب کچھ جاتا ہے اور نکلتا کچھ نہیں۔
گمان ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے یہ فلم باتھ روم کے تخت طاؤس کے قدمچے پر بیٹھ کر لکھی ہے۔
بولی ووڈ کے دادا نانا پاٹیکر کی بھی ایک فلم یاد آتی ہے جس کا نام ٹیکسی نمبر نو دو گیارہ تھا۔ اس کا گانا تھا میٹر ڈاؤن ڈاؤن ڈاؤن۔ آج کل کے بچوں کو میٹر کا کچھ علم نہیں ہوگا۔ پہلے کراچی کی ٹیکسیوں میں میٹر لگے ہوتے تھے۔ جب تک سست ٹیکسی دو کلومیٹر چلتی تھی، برق رفتار میٹر چھ کلومیٹر چل چکا ہوتا تھا۔ غالباً یہ مصرع اسی زمانے میں شاعر نے کراچی کی ٹیکسی میں بیٹھ کر کہا ہوگا، دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔۔۔
فلم جب وی میٹ کا وہ سین بھی یادگار ہے جب ہیروئن یعنی کرینہ کپور کی ٹرین چھوٹ جاتی ہے اور ہیرو یعنی شاہد کپور ایک ٹیکسی کو تیز بھگا کر اسے ٹرین سے پہلے اگلے اسٹیشن پر پہنچا دیتا ہے۔ بہرحال فائدہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ مس کرینہ سے وہ ٹرین بھی مس ہوجاتی ہے۔
اس فلم سے پہلے کرینہ اور شاہد کی بہت دوستی تھی۔ پھر پتا نہیں اس فلم کے بعد کس کی کون سی ٹرین چھوٹی کہ دونوں "کپوروں” کی منزلیں جدا ہوگئیں۔
اب ہالی ووڈ کے بغیر بات کیسے مکمل ہو۔ مارٹن سکورسیسی کی فلم ٹیکسی ڈرائیور کون بھول سکتا ہے جس میں رابرٹ ڈی نیرو نے مرکزی کردار نبھایا تھا۔ یہ ایک تنہا نوجوان کی کہانی ہے جو تنہائی، بے خوابی اور نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ہے۔
بعد میں عالمی شہرت حاصل کرنے والی جوڈی فوسٹر نے اس فلم میں کمسن طوائف کا مختصر کردار کیا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو آسکر تو نہیں ملا لیکن یہ ہالی ووڈ کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔
جیو میں پہلے یہ ہوتا تھا کہ ہر سالگرہ پر مزے مزے کی ان ہاؤس رپورٹیں بنائی جاتی تھیں جو نشر نہیں کی جاتی تھیں۔ صرف دفتر کے عملے کی تفریح طبع کے لیے ہوتی تھیں۔ ان رپورٹس کے بلیٹن کا نام جیو پنگا ہوتا تھا۔
ان میں یہ آزادی ہوتی تھی کہ لوگ اپنے باس کا مذاق اڑائیں، انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔
ہمارے بھائی نصرت امین نے ایک بار کمال کیا کہ ہمارا تو اظہر عباس صاحب کا نام سن کر ہوش اڑ جاتا تھا اور انھوں نے جیو پنگا میں ان کی نقل اتاری۔ بالکل انھیں کی طرح نیوزروم میں آکر کبھی اس کو ڈانٹا، کبھی اس کو پھٹکارا۔ آخر میں دکھایا کہ وہ غصے میں نہیں تھے بلکہ دوسروں کی حالت زار کا لطف اٹھا رہے تھے۔
یہ ذکر بیچ میں آگیا۔ اصل بات یہ تھی کہ جیو پنگا کی ایک رپورٹ ڈرائیور کے بارے میں تھی۔ رپورٹر کو کوریج کے لیے جانا تھا لیکن ڈرائیور نہیں مل رہا تھا۔ سب مصروف تھے۔ آخر یہ کہا گیا کہ ادارے میں جو شخص سب سے زیادہ یعنی بالکل ہی فارغ ہے، اسے کہو کہ آج ڈرائیور بن جائے۔
وہ شخص کیری ڈبے میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ رپورٹر نے کہا، صدر۔۔۔ چلو!
یہ ذومعنی جملہ تھا کیونکہ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو رپورٹ ختم ہوگئی۔ وہ ڈرائیور جیو کے صدر عمران اسلم تھے۔
عمران اسلم صاحب نے اپنے اوپر بنائی گئی اس لطیفہ رپورٹ میں خود ہی ڈرائیور کا کردار کیا تھا۔
شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ ایک امریکی سینیٹر کا نام شیلڈن وائٹ ہاؤس ہے۔ کبھی امریکی کانگریس کا پنگا بلیٹن بنے تو انھیں ڈرائیور بناکر کہا جاسکتا ہے، وائٹ ہاؤس۔۔۔ چلو!
اچھا جناب، باقی باتیں بعد میں، کیونکہ اگلی سواری مل گئی ہے۔ یہاں گلی میں پہنچا تو مکان کے آگے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا، ایمری؟ اس نے کہا، وہ میری گرل فرینڈ ہے۔ اندر جاتے ہوئے پوچھا، اسے کیا کہوں؟ میں نے دل میں عرش صدیقی سے معذرت کرتے ہوئے کہا،
اسے کہنا کہ اوبر آگیا ہے۔۔۔

%d bloggers like this: