مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یا تو اچھا شاعر ہوتا ہے، یا شاعر ہی نہیں ہوتا۔ ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا تو اچھا شاعر ہوتا ہے، یا شاعر ہی نہیں ہوتا۔ درمیان میں کم اچھا شاعر، عام شاعر، معمولی شاعر، برا شاعر، ناشاعر اور متشاعر سب ایک ہی کیفیت میں مبتلا شخص کے مختلف نام ہیں۔
اقبال کو علامہ، فلسفی اور قومی شاعر بنانے کے بعد محب وطن قوم اس مشکل میں پڑگئی کہ ہر شاعر کو اسی پیمانے میں دیکھنے لگی۔ شاعر مذہب یا کسی فلسفے کے بغیر کوئی شاعر کلام پیش کرے تو اسے کم اہم شاعر سمجھا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی نقاد بلکہ ایم اے اردو کے مقالہ نگار بھی شاعر کے کلام سے ایسے ایسے نکتے نکالتے ہیں کہ اگر ممدوح زندہ ہو تو خود پر صدق دل سے ایمان لے آتا ہے۔
میری ناقص رائے میں شاعر کا شاعر ہونا، یعنی اچھا شاعر ہونا کافی ہوتا ہے۔ شاعر کا کام مذہب کی تبلیغ، کائنات کے اسرار سمجھانا اور زندگی کا نیا فلسفہ پیش کرنا نہیں، اپنی شاعری سے جمالیاتی ذوق کی تسکین کرنا ہے۔ احمد فراز نے یہ کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ فیض، ندیم، قتیل شفائی، عبیداللہ علیم، جون ایلیا، افتخار عارف، منیر نیازی اور بہت سے دوسرے اچھے شاعروں کی موجودگی میں سب سے زیادہ پرستار فراز کے تھے تو یہ حیرت کی بات نہیں۔ آج بھی کسی کتابوں کی دکان پر جاکر پوچھ لیں، فراز سے زیادہ کسی شاعر کی کتاب فروخت نہیں ہوتی۔
جون ایلیا کے بعد از مرگ شہرت میں سو گنا اضافے اور جدید شاعری کی بدولت اب پرانے مضامین کو نئے لوگ تنقیدی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فراز کے پاس وہی مضامین ہیں یعنی محبت، وصال، فراق، دوست، زلفیں، آنکھیں، پیرہن، جنون، ناخدا، لیکن ان کی غزلیں دیکھ کر وہ اکتاہٹ نہیں ہوتی جو بعض اساتذہ کا کلام پڑھتے ہوئے ہوتی ہے۔ چند شعر دیکھیں:
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد اب معلوم
کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی
ہم ترے شوق میں یوں خود کو گنوا بیٹھے ہیں
جیسے بچے کسی تہوار میں گم ہوجائیں
ہم ایسے لوگ جو آشوب دہر میں بھی ہیں خوش
عجب نہیں ہے اگر تجھ کو بھول جائیں بھی
کیا عجب ہے وہ ملے بھی ہوں فراز
ہم کسی دھیان میں کھوئے ہوں گے
اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہوجانا
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے اے اجنبی دوست
تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست
فراز نے غالب کی طرح بعض شرارتی شعر بھی کہے ہیں لیکن اپنا انوکھا پن برقرار رکھا ہے:
اس منظر سادہ میں کئی جال بندھے تھے
جب اس کا گریبان کھلا بال بندھے تھے
اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج میں نے پہلی بار اس سے بے وفائی کی
شب نشاط تھی یا صبح پر ملال تھی وہ
تھکن سے چور تھا میں نیند سے نڈھال تھی وہ
کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
میں اپنے گھر کی طرح اس میں بس گیا تو کھلا
کرائے کے لیے خالی مکان تھی وہ بھی
فراز کے کئی شعر زبان زد خاص و عام ہوکر گویا محاورہ بن گئے ہیں:
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
فراز وطن سے دور رہے اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف جذبات میں شاعری بھی کی۔ اس کا اظہار یوں ہوا:
میں تو ہر طرح کے اسباب ہلاکت دیکھوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنام وطن
مکین خوش تھے کہ جب بند تھے مکانوں میں
کھلے کواڑ تو تالے پڑے زبانوں میں
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
اس نے جب چاہنے والوں سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
خدا اور ملا پر فراز کے طنزیہ شعر دلچسپ ہیں:
ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
سبھی نے وعدہ فردا پہ ٹال رکھا ہے
نہ کر کسی پہ بھروسا کہ کشتیاں ڈوبیں
خدا کے ہوتے ہوئے ناخدا کے ہوتے ہوئے
یہ راز نعرہ منصور ہی سے ہم پہ کھلا
کہ چوب منبر مسجد صلیب شہر بھی ہے
لازم ہے مرغ باد نما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر لگی ہوئی
اور یہ گہرے شعر ہر ایک کے لیے نہیں ہیں:
ہم کو تو عمر کھاگئی خیر ہمیں گلہ نہیں
دیکھ تو کیا سے کیا ہوئے یار کے خد و خال بھی
آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاوں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا مرے زخم کو بھر یا مجھے گویائی دے
یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں
میں شاعری میں دلچسپی کا آغاز کرنے والے نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ پہلے فراز کو پڑھیں۔ غالب کو بھی بعد میں دیکھیں۔ جون کو بعد میں پڑھیں۔ پہلے فراز کی آسان شاعری سمجھ میں آنے لگے تو پھر آگے چلیں۔
آج میں نے کتب خانے والے گروپ میں احمد فراز کی کلیات پیش کی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ،
کوئی سخن برائے قوافی نہیں کہا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: