مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمران خان کا لانگ مارچ "جہاد” ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان نے بالآخر جمعہ 28اکتوبر دن گیارہ بجے لبرٹی چوک لاہور سے اپنے لانگ مارچ جہاد کے آغاز کا اعلان کر ہی دیا۔ منگل کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’’یہ جہاد فیصلہ کرے گا پاکستان نے کدھر جانا ہے، مارچ کب ختم ہوگا اس کا ٹائم فریم نہیں دے سکتا‘‘۔

منگل کو ہی پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہنا تھا ’’اگر بھیڑ بکریوں کی طرح نہیں رہنا چاہتے تو میرے ساتھ حقیقی آزادی کے لئے نکلو‘‘۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ

’’کینیا میں قتل ہونے والے پاکستانی اینکر ارشد شریف ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے ہیں مجھے معلوم تھا کہ ارشد شریف کو قتل کردیا جائے اس لئے میں نے انہیں ملک سے باہر چلے جانے کا مشورہ دیا ”

ان کے اس انکشاف پر گزشتہ روز سے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں اور کچھ مطالبات بھی کئے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سوالات کرنے یا مطالبات کرنے والوں کے منہ تو بند نہیں کئے جاسکتے، اس ملک میں صرف عمران خان کو تو ہی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جب چاہیں جو چاہیں کہہ دیں چند دن بعد یوٹرن لیں اور کہہ دیں بڑا لیڈر یوٹرن لینے سے ہی بنتا ہے۔

وہ اس اعتبار سے یقیناً خوش قسمت ہیں کہ انہیں ایک ایسا طبقہ دیوانہ وار چاہتا ہے جو ان کے موقف کے حق میں دلائل دے کر سوتا ہے بیدار ہونے کے بعد ان کے یوٹرن کے فضائل بیان کرنے بیٹھ جاتا ہے۔

منگل کو پشاور میں کہہ رہے تھے میں نے مدینہ کی ریاست بنانے والی بات اقتدار میں آنے کےبعد کی یار لوگ ان کے انتخابی جلسوں کی تقاریر نکال کر لے آئے پھر خوب رونق لگ گئی۔ اپنی کہی بات انہیں یاد کیوں نہیں رہتی؟ اس پر خود انہیں غور کرنے اور اچھے حکیم کو دیکھانے کی ضرورت ہے۔

ان کا زعم یہ ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جواب دینے والا ان کے حامیوں کے نزدیک گستاخ ہے۔

ارشد شریف کے قتل کی سازش سے وہ آگاہ تھے، انہوں نے ہی اسے بیرون ملک جانے پر آمادہ کیا (بلکہ بھجوایا کیونکہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ارشد شریف کو پشاور ایئرپورٹ سے پورے پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا تھا) اب حکومت جو جوڈیشل کمیشن بنا نے جا رہی ہے یہ کمیشن پہلا کام یہی کرے کہ انہیں طلب کرکے سازش کی تفصیلات اور کرداروں بارے آگاہی حاصل کرکے ان کا بیان ریکارڈ کرے۔

سوشل میڈیا پر جہاں عمران خان کے ارشد شریف والے معاملے میں انکشاف کا دفاع کیا جارہا ہے وہیں کچھ لوگ ان کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کررہے ہیں دونوں کے پاس دلائل ہیں۔ کچھ لوگ تحریک انصاف کے اس ’’سرکاری‘‘ موقف کو بھی زیربحث لے آئے ہیں کہ انصافیوں کے بقول محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف زرداری ملوث تھے تو اب ارشد شریف کے قتل سے سیاسی فائدہ اٹھانے والے عمران خان منصوبے کا حصہ کیوں نہیں ہوسکتے۔

عدالتی کمیشن یقیناً اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گا اسے تین چار کام ضرور کرنے چاہئیں اولاً عمران خان کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیے۔ ثانیاً سابق سینیٹر انور بیگ کو طلب کیا جائے انہوں نے رئوف کلاسرا کو دیئے گئے انٹرویو میں کچھ اہم باتیں کی ہیں۔ سابق سینیٹر انور بیگ چونکہ ان دنوں میں بھی ارشد شریف سے رابطے میں تھے بقول ان کے جب مقتول کا اپنے خاندان سے بھی رابطہ نہیں تھا اس لئے ان کا بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہوگا۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ کمیشن دبئی حکام سے یہ معلومات ضرور لے کہ مقتول اپنے قیام دبئی کے دوران کن کے پاس قیام پذیر تھے اور ٹرانسپورٹ کون فراہم کررہا تھا نیز یہ کہ دبئی سے کینیا جانے کا فیصلہ اور انتظام خود ان کا تھا کہ اس کے لئے مشورہ اور انتظام ایک معروف بین الاقوامی مالیاتی گروپ کا تھا جسے ان دنوں برطانیہ اور امریکہ میں تحقیقات کا سامنا ہے یا اس میڈیا ہاوس کے مالک کا جس نے ارشد شریف کو ظاہراً اپنے میڈیا ہاوس سے الگ کردیا تھا ؟۔

مندرجہ بالا تینوں نکات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اس بات کی تحقیقات بھی ہونی چاہئیں کہ کینیا میں مقتول کے ساتھ اکثر رہنے والے بلکہ فائرنگ کے وقت ان کے ہمراہ گاڑی میں موجود خرم اور وقار کا اس عالمی مالیاتی گروپ اور پاکستانی میڈیا ہاوس کے مالک سے کیا تعلق تھا اور یہ کہ کینیا کی پولیس نے پاکستانی ہائی کمیشن کو خرم اور وقار تک رسائی کیوں نہیں دی۔

اس کیس میں دو اور سوال اہم ہیں، پہلا یہ کہ گاڑی پولیس ناکے پر نہ روکنے کی وجہ کیا تھی۔ اس سوال کا جواب گاڑی چلانے والا خرم دے سکتا ہے یا وقار۔ نیز یہ کہ فائرنگ میں تین میں سے ایک شخص شدید زخمی ہوگیا لیکن ڈرائیور (خرم) نے گاڑی کو وقوعہ والی جگہ سے 78کلومیٹر دور ایک دوسرے شہر میں لے جاکر روکا۔ ایسا کیوں کیا گیا۔

امید ہی کی جاسکتی ہے کہ حکومت کی تشکیل کردہ تحقیقاتی ٹیم اور اعلان کردہ جوڈیشل کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے دوران ان نکات کو بھی مدنظر رکھیں گے۔

ویسے تو یہ سوال بھی اہم ہے کہ عمران خان نے چند دن قبل کہا تھا کہ وہ لانگ مارچ کی تاریخ کااعلان جمعرات یا جمعہ کو کریں گے لیکن جونہی اینکر ارشد شریف کا کینیا میں قتل ہوا انہوں ان کی جماعت اور ہمدردوں نے اس قتل پر سیاست کا آغاز کردیا اور خان صاحب نے بھی جمعرات جمعہ کا انتظار کئے بغیر منگل کی شام پشاور سے لاہور پہنچ کر ایوان وزیراعلیٰ 90شاہراہ قائداعظم پر ہنگامی طور پر بلائی گئی پریس کانفرنس میں جمعہ 28اکتوبر کو لانگ مارچ کے آغاز کا اعلان کردیا۔

ہوسکتا ہے کہ انہوں نے وقت کا فائدہ اٹھانے کے لئے ہنگامی طور پر لانگ مارچ کے اعلان کی تاریخ دی ہو پھر بھی اس اعلان سے جو شبہات پیدا ہوئے ان کا جواب تو ملنا چاہیے یہ اس لئے ضروری ہے کہ مقتول ارشد شریف کو بیرون ملک جانے کا مشورہ بقول عمران خان انہوں نے دیا تھا ۔

خیبر پختونخوا حکومت نے انہیں پروٹو کول کے ساتھ رخصت کیا۔ جونہی ان (ارشد شریف) کے کینیا میں قتل ہونے کی اطلاع پاکستان پہنچی خان صاحب سے ان کے عام ہمدرد تک دو دھاری تلواریں سنبھالے میدان میں اتر آئے جیسے وہ اسی ’’خبر‘‘ کے منتظر تھے۔

جہاں تک جمعہ کو شروع ہونے والے ان کے لانگ مارچ جسے وہ جہاد قرار دے رہے ہیں کا تعلق ہے تو یہ ان کا ’’جمہوری حق ہے‘‘۔ ’’اسلامی ٹچ‘‘ وہ ہر بات میں دیتے ہیں لانگ مارچ کو جہاد کا اسلامی ٹچ اسی لئے دیا ہے۔

یہاں ایک سوال اور بھی ہے خان صاحب جن کو میر جعفر میر صادق امریکی سہولت کار اور غدار قرار دیتے ہیں ان سے پچھلے دنوں انہوں نے ملاقاتیں کیوں کیں؟

وہ اٹھتے بیٹھتے ہر تقریر میں یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں ’’میری حکومت گرانے والوں کو اگر غلطی کااحساس ہوگیا ہے تو اس کا ازالہ کریں‘‘۔

یعنی اگر انہیں 9اپریل کی شام والی پوزیشن پر بحال کردیا جائے تو ’’نہ کوئی میر جعفر ہوگا نہ میر صادق، نہ غدار نہ سہولت کار بلکہ بندہ و محتاج و غنی ایک ہوجائیں گے‘‘؟

اپنے لانگ مارچ عرف جہاد کے حوالے سے انہوں نے پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا ہے کہ عوام کے ہمراہ لبرٹی چوک لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ اسلام آباد پہنچوں گا۔ ہم ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔

ویسے تو انہوں نے پریس کانفرنس میں (ن) لیگ اور آصف علی زرداری کو چیلنج بھی کئے اور یہ بھی کہا کہ

’’دروازے ہمیشہ بیک ڈور چینل پر کھلتے ہیں‘‘۔

ہمیں امید ہے کہ خان صاحب جب لانگ مارچ جہاد پر لاہور سے روانہ ہوں گے ان کے ایک ہاتھ میں امریکی دھمکی والا سائفر اور دوسرے ہاتھ میں مقتول ارشد شریف کا لہو سے بھرا کرتہ ہوگا اور جیب میں ان سہولت کار غداروں کی فہرست جو انہوں نے راستے میں یا اسلام آباد ’’اگر پہنچ پائے‘‘ پہنچ کر اپنے سامعین کو پڑھ کر سنانی ہے تاکہ یہ ’’کھیچل ‘‘ بھی ختم ہو۔

دو دن قبل انہوں نے کہا تھا ہمارا لانگ مارچ مختلف ہوگا لوگ انجوائے کریں گے۔ منگل کو لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران لانگ مارچ کو جہاد قرار دیا

اس پر فقیر راحموں پوچھ رہا ہے خان صاحب اب انجوائے تو نہیں ہوگا نا کیونکہ جہاد کے تقاضے یکسر مختلف ہوتے ہیں؟ بہرحال یہ امید کی جانی چاہیے کہ وہ لانگ مارچ جہاد کو پرامن رکھیں گے تاکہ ان کے لئے مسئلہ پیدا ہو نہ لوگوں اور حکومت کے لئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: