اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باٹ یا بم۔۔۔۔||غضنفرعباس

وہ باٹ نہیں بم تھا جو پانچ مارچ دوہزار چودہ کے دن عصمت اللہ ہی کے گھر پھٹ گیا اور اس کے نتیجے میں اس کے دوبیٹے ہلاک ہوئے بچوں کی عمریں چودہ اور سات سال تھیں ۔ دھماکہ خیز مواد کہاں سے آیا اس حوالے سے عصمت اللہ نے بتایا

غضنفرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصمت اللہ  پاکستان میں پنجاب کی جنوبی ضلع ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ کے نواح میں قصبہ ریتڑہ کے رہائشی ہیں ۔وہ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ علاقے میں لگنے والے ہفتہ وار منڈی بازارمیں کریانہ کا سامان بھی بیچتے ہیں ۔ فروری دوہزار چودہ کے دوسرے ہفتے عصمت اللہ کو  مقامی منڈی کے پاس ہی لوہے کا ایک ٹکڑا ملا جسے وہ کباڑی کو بیچنے کے لیے اٹھا لایا ۔ اس لوہے کے ٹکڑے کا وزن ایک کلوگرام تھا لہذا وہ اسے باٹ بنا کرمنڈی میں سودا سلف تولنے کا کام بھی لیتا رہا ۔

وہ باٹ نہیں بم تھا جو پانچ مارچ دوہزار چودہ کے دن عصمت اللہ ہی کے گھر پھٹ گیا اور اس کے نتیجے میں اس کے دوبیٹے ہلاک ہوئے بچوں کی عمریں چودہ اور سات سال تھیں ۔ دھماکہ خیز مواد کہاں سے آیا اس حوالے سے عصمت اللہ نے بتایا

میں نماز پڑھنے کے لیے گیا تو میں نے دیکھا سرکنڈے کے نیچے ایک لوہے کا ٹکڑا پڑا ہے میں نے یہ سوچ کر اٹھا لیا کہ کباڑی کو بیچ کر چالیس پچاس روپے کمالوں گا۔ وہ میں نے اٹھاکر گھر لا کر رکھ دیا ۔ میں اس لوہے کے ٹکڑے کو باٹ بناکر منڈی بھی لے جاتا رہا اور اس سے سودا سلف تول کر بھی دیتا رہا ۔ مجھے نہیں معلوم یہ کیا تھا گھر میں موجود باٹ نما یہ بم کیسے پھٹا اس حوالے سے عصمت اللہ کی بیوی کاکہنا ہے :

بچوں کی نانی گھر میں تھی اور فون سن رہی تھی اس نے کہا کہ میں گھر کے صحن میں تھی اور میرا منہ دوسری طرف تھا اچانک دھماکہ ہوا اور کمرے میں دھواں پھیل گیا۔بچوں اور نانی کے جسم پر بم میں موجود لوہے کے چھرے پیوست ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ مچھر یا مکھیاں جسم پر جمع ہوگئی ہیں۔  بچوں کی نانی لہولہان ہوگئی وہ گھر سے باہر گئی اور ایک رشتہ دار نے اسے ہسپتال پہنچایا اور اس نے ہی ہمیں دھماکے کی اطلاع دی

دھماکے کے فورابعد مقامی پولیس عصمت اللہ کو گرفتار کر کے لے گئی اور اس پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔  لگ بھگ ایک مہینہ حراست میں رکھنے کے بعد عصمت اللہ کو ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

عصمت اللہ کی بیوی کہتی ہیں کہ یہ اتفاقی حادثہ تھا جو لاعلمی کی وجہ سے پیش آیا ۔مگرپولیس نے ان کے خاوند کو ناحق گرفتارکرکے اس پر تشدد کیا:

میرے خاوند کو بے قصور زیر حراست رکھا گیا اب اس کا دماغ بھی ٹھیک نہیں رہا اتنا تشدد کیا گیا۔ایک ہمارے بچے خدا نے اٹھالیے دوسرا جب میرا خاوند گھر واپس لوٹا تو اس کا دماغ ٹھکانے نہیں تھا۔ گھر کا فرد ساتھ ہو توبندہ دُکھ درد بانٹ لیتا ہے ہمارے ساتھ اتنی ناانصافی ہوئی ہے  کہ میرے خاوند کو اپنے بچوں کا جنازہ تک نہیں پڑھنے دیا گیا اور نہ ہی اسے بچوں کا آخری دیدار نصیب ہوا ہمارے ساتھ اتنا ظلم ہوا ہے ۔بچے ہمارے اپنے تھے مگر ہم اپنے ہاتھ سے انھیں دفنا نہ سکے ۔

خیبر پختونخوا کے بندوبستی اور قبائلی علاقوں سے متصل اس علاقے میں شدت پسندوں کی آمدورفت آسانی سے ممکن ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے قصور لوگوں کو تنگ کرنے کے بجائے علاقے کی سیکورٹی پر توجہ دیں ۔  اس سے قبل ضلع ڈیرہ غازی خان کے قصبہ شادن لُنڈ سے بھی بھاری اسلحہ سے بھرا ہوا ایک ٹرک پکڑا گیا تھا ۔

 

غضنفرعباس کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: