اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی، بجلی کے بلوں کے ذریعے زبردستی کی جانے والی ’’وصولیوں‘‘ سے چلتا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ٹی وی، بجلی کے بلوں کے ذریعے زبردستی کی جانے والی ’’وصولیوں‘‘ سے چلتا ہے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں ’’وصولیاں‘‘ نہیں ’’بھتہ‘‘ کہو۔ یہی درست تعریف ہے۔ ماہ و سال بیت گئے کبھی پی ٹی وی نہیں دیکھا۔
کئی وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ پی ٹی وی کا سرکاری بھونپو ہوناہے۔ بھونپو بھی ایسا کہ بس اس سے زیادہ کوئی تعارف اس کا بالکل نہیں۔
اسی پی ٹی وی کے نئے چیئرمین، تبدیلی سرکار والے عمران خان کے خاص درباری نعیم بخاری ہیں۔
نعیم بخاری کی وجہ شہرت کبھی ملکہ پکھراج کا داماد ہونا تھا یا طاہرہ سید کا مجازی خدا ہونا۔ یہ رشتہ ٹوٹ گیا، کیوں، وجہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
ایک شہرت ان کا پھکڑ پن ہے اور دوسری مالکان جاتی امراء سے شدید ترین نفرت۔ یہ نفرت ان کا ذاتی مسئلہ ہے ہم اس میں نہیں پڑتے۔ کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر جانے دیجئے۔
بہر طور نعیم بخاری اب پی ٹی وی کے قبرستان کے گورکن ہیں۔
یہ منصب بلامعاوضہ خدمتوں کا صلہ ہے۔ تبدیلی اس کو کہتے ہیں۔ بھتہ گیری سے چلنے والے ادارے پر ایک ٹوڈی کو لابٹھایا جائے۔
ہائے وہ بھی کیا دن تھے جب عمران خان پی ٹی وی کو
بی بی سی جیسا ادارہ بنانے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
یہ بھی کیا دن ہیں کہ نعیم بخاری کو سربراہ بنادیا اور موصوف کہتے ہیں پی ٹی وی پر اپوزیشن کونمائندگی نہیں ملے گی یہ اسٹیٹ ٹیلی ویژن ہے صرف اسٹیٹ کی ترجمانی کرے گا۔
یہی وہ نکتہ ہے جس نے ان کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملادی۔ خیر انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ پی ٹی وی کے قبرستان کو واقعتاً ایک گورکن کی ضرورت تھی اور نعیم بخاری سے بہتر انتخاب اور ہو ہی نہیں سکتا۔
سچ پوچھیں تو بھتے اسی طرح حلال ہوتے ہیں۔ آپ اپنے چار ا ور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے۔ بھتہ گیروں کے معاملات کا بغور مشاہدہ کیجئے، بھتوں کی کمائی اسی طرح کے اللوں تللوں پر اٹھتی ہے۔
دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے، پی ٹی وی جو 1980ء کی دہائی تک پاک و ہند میں اپنے بے مثال ڈراموں کی وجہ سے مقبول تھا آج کہاں کھڑا ہے؟ کیسے کیسے نابغہ روزگار اس ادارے سے منسلک تھے۔
خبریں اور تجزیے تو آزاد ذہن رکھنے والوں کے نزدیک اس وقت بھی قابل بھروسہ نہیں تھے۔
تب خبرنامے کو ’’وزیرنامہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
1990ء کی دہائی کے وسط سے ذرائع ابلاغ کی دنیا وسیع ہونا شروع ہوئی، پی ٹی وی بھی محدود ہوتا گیا۔ انٹرنیٹ متبادل بنااس سے اگلی دہائی میں ذرائع ابلاغ میں نئے تجربات ہوئے نئے نئے چینل آتے چلے گئے۔ لوگوں کو پی ٹی وی صرف ایک دن یاد آتا جب وہ اپنا بجلی کا بل دیکھتے۔ پی ٹی وی کے قبرستان میں رونقیں برقرار رکھنے کے لئے وہ سارے اقدامات اٹھائے گئے جو منظم انداز میں بسائے گئے کسی قبرستان کی کمیٹی کرسکتی ہے لیکن نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘
اس دور میں جب ذرائع ابلاغ چھوٹے سے موبائل فون میں سمٹ کر ٹچ کےمرہون منت ہیں ضرورت اس امر کی تھی کہ عمران خان اپنے وعدہ کے مطابق اسے ایک بااعتماد ادارہ بنانے کےلئے اقدامات کرتے لیکن ہوا اس کے برعکس۔
نعیم بخاری اب اس کے سربراہ ہیں ان کی فکراور ظرف کا اندازہ بالائی سطور میں لکھے ان کے اپنے الفاظ سے آپ لگاسکتے ہیں۔ پی ٹی وی اربوں روپیہ کا سالانہ بھتہ بذریعہ حکومت وصول کرتا ہے۔ کارکردگی کیا ہے، ماسوائے اس کے ہر حکومت اپنے میڈیا منیجروں اوربھونپوئوں کو اس میں نوازتی ہے۔
ایک ایسا صاحب دانش بتادیجئے جو اس ادارے سے اب منسلک ہو یا جس کی خدمات حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہو۔
حکومتوں کے چمچے اس میں اینکری فرماتے ہیں بھولے سے کوئی ایک آدھ آزاد خیال شخص بچ گیا ہو تووہ بھی خیر منائے۔
چھوڑیں ہم اور آپ کون سا پی ٹی وی دیکھتے ہیں، ہاں بھتہ ہر ماہ ادا کرتے ہیں۔ مجبوری ہے حکومت بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کرتی ہے۔
نعیم بخاری کی آمد سے اسے بھاگ نہیں لگ سکتے۔ پھکڑ پن میں اعلیٰ درجہ کی مہارت اور اپنی ذات کے سوا ہر طرف اندھیرا محسوس کرنے والا شخص اس ادارے پر لابٹھایا گیا ہے جسے ماضی کی حکومتوں نے ادارے سے قبرستان بنادیا۔
ہم نعیم بخاری کو زیادہ سے زیادہ پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا گورکن کہہ سکتے ہیں۔
سناٹا مزید بڑھے گا، درباری بڑبولوں کی دیہاڑیاں لگیں گی۔ ہوسکتا ہے وہ اچھے وکیل رہے ہوں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انہیں پی ٹی وی پر مسلط کردیا جاتا۔
قبرستان کو پھر سے ادارہ بنانے کے لئے تجربہ کار شخص کی ضرورت تھی۔ ان کا ’’تجربہ‘‘ جن ’’مدوں‘‘ میں ہے وہ تو لکھا ہی نہیں جاسکتا وہ خود بھی اپنی سی وی میں ’’وہ تجربہ‘‘ کبھی نہیں لکھیں گے۔
صاف سیدھے لفظوں میں یہ کہ عمران خان نے جس طرح نواں پاکستان بنایا ویسے ہی پی ٹی وی کو بی بی سی بنانے کے لئے نعیم بخاری کو مسلط کیا گیا ہے۔
ماضی کی حکومتیں بھی یہی کرتی تھیں تحریک انصاف نے بھی یہی کیا۔
’’بس کراڑی کا نام غلام فاطمہ رکھ دیا گیا‘‘،
دسو ہن آرام جے؟

%d bloggers like this: