اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عرب اسرائیل تعلقات اور ممکنہ بیروزگار’’ دیندار‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

یہ بھی یہی معاملہ ہے ہم پچھلے 40برسوں میں دو طرح کے بیروزگاروں کا ردعمل بھگت چکے اس لئے ڈر لگتا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملتانی دوستوں کی یادوں کا سلسلہ جاری ہے۔ درمیان میں ملتانی منڈی اور ملتانی سنگت کے مہربانوں سے رابطہ کرنے کی سوچتا ہوں لیکن پھر مصروفیات آڑے آجاتی ہیں۔ شب و روز اس حال میں گزر رہے ہیں کہ گزار ہی رہے ہیں۔
شاکر دستی نے فون پر پوچھا حالات کیسے ہیں۔ عرض کیا فقیر راحموں گن مین لئے پھرتا ہے۔ کہتا ہے اس شاہ کا کیا بھروسہ، بندے کو اپنی حفاظت کا سامان خود کرنا چاہیے۔
کچھ دیر قبل سیدی جاوید کاظمی ’’بدلتا زمانہ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد دینے تشریف لائے۔ مبارک سلامت کے بعد ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران ان کاکہنا تھا کہ عرب اسرائیل تعلقات کار جوں جوں گرم جوشی کے ساتھ بڑھیں گے ہمارے یہاں بیروزگاروں کا ہجوم بڑھے گا۔
بات ان کی درست ہے یہ دیندار بیروزگار ہمارے لئے تقریباً ویسے ہی مسائل پیدا کریں گے جیسے سوویت امریکہ جنگ کے ’’مجاہدین‘‘ نے جنگ کے اختتام پر پیدا کئے تھے۔
ریاستیں جب منتخب لشکروں اور بندوں کو غیرریاستی ایکٹروں کا کردار دے کر دھندے پر لگاتی ہیں تو یہ نہیں سوچتیں جب کاروبار میں مندہ درآئے گا تو بیروزگار کیا کریں گے۔
1980ء میں افغان انقلاب ثور کے بعد افغان سرزمین پر لڑی گئی امریکہ سوویت یونین جنگ کا ایندھن بھانت بھات کے لوگ بنے۔
ان لوگوں کو لانے، تربیت دینے اور میدان جنگ میں اتارے جا نے کے عمل کے دوران تاریخ و سیاست کے ہم ایسے طلباء نے اس وقت کی فوجی حکومت کو متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا تھا
’’حضور! یہ رضاکار جب بیروزگار ہوں گے تو سب سے پہلے ہماری درگت بنائیں گے‘‘۔
تب اس جنگ کو جہاد کہنے والے آسمان سر پر اٹھائے پھرتے تھے چھوٹی چھوٹی بات پر فتوے اور غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے تھے۔
اہل اقتدار بھی امریکہ سوویت جنگ میں پاکستان کے پرجوش کردار کے ناقدین کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ ناقدین کے پر ان دنوں جو ستم توڑے گئے وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
اس سے سیاہ باب بعدازاں اس وقت لکھا گیا جب 1980ء کی دہائی کے مجاہدین 9/11 کے بعد دہشت گرد قرار پائے۔
درمیانی عرصہ میں بھی سابق مجاہدین نے ہمیں مسلمان بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن 9/11 کےبعد تو دہشت گردی کا ’’سیلاب‘‘ ہی آگیا۔
امریکہ سوویت جنگ کی کوکھ سے جنم لی خانہ جنگی نے افغانوں کا برا حال کیا اور فرقہ پرستی نے ہمیں خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا۔ وہ سارے گھاو ابھی تک بھرے نہیں۔
یہ بجا ہے کہ پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے کچھ بہتری آئی مگر کونے کھدروں میں چھپے دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ موقع ضائع نہیں کرتے۔
غور طلب امر یہ ہے کہ کیا ہم آنے والے ماہ و سال کو مکمل طورپر محفوظ بنالینے کی حکمت عملی وضع کرچکے؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
ثانیاً یہ کہ عرب اسرائیل تعلقات کا دائرہ جوں جوں پرجوش انداز میں وسیع ہوگا پچھلے چالیس برسوں سے روزگار پر لگے دینداروں کی بیروزگاری کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔
خطرے کی گھنٹی یہی سوال ہے
یعنی یہ بیروزگار دیندار پھرکیا کریں گے۔ کیا وہ عرب اسرائیل تعلقات کار کے لئے اپنی اپنی دیرینہ فہم کے برعکس اسے خیروبرکت کے دور کا آغاز قرار دیں گے یا وہی کام کریں گے جو بابری مسجد کی شہادت کے بعد ’’اہل درد‘‘ نے پاکستان میں کیا تھا۔
ان امور پر ٹھنڈے دل سے سوچنے اور سدباب کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں
’’دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘۔
یہ بھی یہی معاملہ ہے ہم پچھلے 40برسوں میں دو طرح کے بیروزگاروں کا ردعمل بھگت چکے اس لئے ڈر لگتا ہے۔
سو اندریں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو حکومت عرب اسرائیل تعلقات کے اس نئے دور کے حوالےسے اپنی پالیسی وضع کرے اور یہ بھی کہ کیا عرب اسرائیل تعلقات کے پرجوش مرحلوں سے بیروزگار ہونے والے دیندار ہمارے سماج اور امن کے لئے خطرہ تو نہیں بن جائیں گے؟
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بیروزگار شخص یا گروہوں کے غصے میں اگر بھوک بھی شامل ہوجائے تو یہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
اصولی بات تو یہ ہے کہ ممالک کے درمیان تعلقات مذہب اور عقیدوں کی بنیاد پر نہیں بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں اور معاشی و سیاسی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے دنیا کی ٹھیکیداری کے خودساختہ زعم نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بھاری بھرکم جانی و مالی نقصانات کے باوجود ہم لٹھ لئے عقل کے پیچھے دوڑے پھرتے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ خود فلسطینی حکومت نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرلئے اور معمول پر لانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ یہاں ہم عجیب و غریب دعووں کے ساتھ آسمان سر پر اٹھائے رہتے ہیں۔
خیر یہ دعویٰ بازوں اور ان کی فہم کا معاملہ ہے۔ ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے یہاں امن و استحکام ہو، پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑانے اور بیرونی مسائل کو اپنے گلوں کا ہار بنانے کی روش ترک کردی جائے۔ ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کا سوچا جانا چاہیے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عنقریب بیروزگار ہونے والے دینداروں کو اپنی توانائیاں ایک فلاحی ریاست کی تشکیل کی جدوجہد کے پلڑے میں ڈالنی چاہئیں۔
خدانخواستہ اگر انہوں نے افغان جنگ کے بیروزگاروں والا رویہ اپنایا تو مسائل بڑھیں گے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ مسلم دنیا اپنے صبح و شام کس طرح کرتی ہے ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کررہا ہے۔
ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اٹھنے والا ہر قدم خوشنودی خالق عظیم کے حصول میں معاون بنے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ ملتانی منڈی اور ملتانی سنگت کے مہربانوں کے لئے تلاش گمشدہ کا کالم لکھنے کو جی کرتا ہے۔ ارے جندڑی جیو دوستو! کچھ حال احوال تو شہرمادر میں مقیم مسافر کا بھی معلوم کرو تو،
اداسیاں بڑھ رہی ہیں۔

%d bloggers like this: