مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشد شریف کی المناک موت اور ”شک شُبے دا ویلا“ ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کی رات بہت مشکل سے تھوڑی نیند نصیب ہوئی۔ سرہانے رکھے موبائل کی گھنٹی بند تھی مگر ”انہونی“ جاننے کے لئے اسے اس حالت میں رکھنا لازمی ہوتا ہے جہاں آپ مسلسل ”گوں گوں“ سے کوئی اہم کال وصول کرسکیں۔ پیر کی صبح یہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بالآخر فون دیکھنا پڑا اور خبر یہ ملی کہ ہمارے ایک دلدار ساتھی ارشد شریف کینیا میں فوت ہوگئے ہیں۔مجھ تک یہ خبر پہنچانے والوں کا اصرار تھا کہ انہیں غالباََ ”کسی“ اُجرتی ”قاتل“ نے سرپر سیدھی گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔یہ دعویٰ کرنے والے افواہ سازی کے عادی نہیں۔ان میں سے چند گزشتہ کئی برسوں سے ارشد کے اندازِ صحافت کی وجہ سے موصوف سے دیرینہ دوستی بھی ترک کرچکے تھے۔ میں ان کے دعویٰ پر اعتبارکو مجبور تھا۔چند دوستوں سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد مگر موبائل کو خود سے دور پھینک دیا۔ ماﺅف ہوئے ذہن میں ارشد شریف کا مسکراتا چہرہ یہ کالم لکھنے تک نمودار ہوئے چلا جارہا ہے۔

صحافت میں مجھ سے کہیں زیادہ نام کمانے اور عوام میں بے تحاشہ مقبول ہوجانے کے باوجود ارشد شریف نے ہمیشہ میرا دل سے احترام کیا۔ دوستوں کی محفل میں مجھ سے پہلے موجود ہوتا تو مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہوجاتا۔اس کی آنکھوں میں پرخلوص تکریم تیرتی نظر آتی اور چہرے پر مسلسل مسکراہٹ۔ میں اس کی ”جی داری“ سے اکثر گھبرا کر محتاط رہنے کا مشورہ دیتا تو دھیمی آواز میں فقط یہ کہنے کے بعدبات ٹال دیتا کہ ”آپ ہی نے توایسی راہ پر دھکیلا ہے“۔

ارشد کی اہلیہ نے ایک ٹویٹ لکھ کر لوگوںسے فریاد کی ہے کہ ہمارے ساتھی کی ہلاکت کوسوشل میڈیا پرحاوی رویے سے محفوظ رکھا جائے۔ ارشد اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔پانچ بچوں کا باپ تھا۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دیگرافراد کی معاشی نگہبانی بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ وہ یقینا ان سازشی کہانیوں کا مستحق نہیں جواس کی المناک موت کے بعد اس کے چند دوست اور دشمن ہیجانی انداز میں پھیلائے چلے جارہے ہیں۔

ہمارا معاشرہ مگر 2014سے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔ارشد کی المناک موت سے کم از کم یہ حقیقت تواب تسلیم کرنا ہوگی کہ مذکورہ تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان ہمارے شعبے یعنی صحافت کوہوا۔ہمارے کئی ساتھی جنہوں نے ساری زندگی سرجھکائے صحافت کے بنیادی تقاضوں کو نبھانے میں گزاردی تھی جھوٹی سچی کہانیوں کی بنیاد پر ”لفافے“ ٹھہرادئیے گئے۔”لفافوں“ کی جگہ لینے کئی ”حق گو“ صحافی برسات میں اُبھری کھمبیوںکی طرح نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا جس ہیجان خیزی کا متقاضی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی تقسیم سے خود کولاتعلق رکھنے والوں کے نام لے لے کر ان کی بابت تضحیک آمیزکہانیاں پھیلاتے ہوئے اپنے ٹاک شوز اور یوٹیوب چینلوں پر رونق لگانا شروع ہوگئے۔ ”صحافت“ اس کی بدولت اجتماعی ساکھ سے محروم ہوگئی۔ اب ”صحافی“ کے بارے میں پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ”کس کا بندہ ہے“۔اس کی دی خبر اور بیان کردہ خیالات کا جائزہ لینے کا قاری یا ناظر تردد ہی نہیں کرتا۔

صحافت کی ساکھ لٹ جانے کا ماتم کرتے ہوئے مجھ جیسا پیدائشی ڈرپوک بھی یہ بیان کرنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ”پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ“ کے عنوان سے ہماری ریاست کے دائمی اور طاقت ور ترین اداروں سے وابستہ چند افراد نے اس ضمن میں سرپرستانہ کردارادا کیا۔”لفافے“ ٹھہرائے جانے کے بعد صحافیوں میں سے ”غداروں“ کی نشاندہی ہونا شروع ہوگئی۔ مذکورہ ”ابلاغی جنگ“ کے عروج کے دنوں میں یہ بدنصیب جان کی امان پاتے ہوئے دہائی مچاتا رہا کہ ”غدار سازی“ کے رحجان سے گریز ہی میں عافیت ہے۔ابلاغ کا ہنرویسے بھی ”جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو….“ کا تقاضہ کرتا ہے۔اس کے علاوہ انگریزی میں بیک فائر (Back Fire)کی ترکیب بھی استعمال ہوتی ہے۔جس عمل کا بہت شدت سے آغاز کیا جائے اس کا ردعمل بھی اتنی ہی شدت سے ایک دن ہر صورت رونما ہوکے رہتا ہے۔مزید تفصیلات میں جائے بغیرمحض اس ”باغیانہ روش“ کی جانب توجہ دلانا ہی کافی ہوگا جو رواں برس کے اپریل میں عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ہمارے روبرو آئی ہے۔

ارشد شریف بھی بدلی صورت حال میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہا تھا۔خاموشی سے بیرون ملک چلا گیا۔ وہ جس ٹی وی چینل سے کئی برسوں سے وابستہ تھا اس نے ارشد سے لاتعلقی اختیار کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی۔ لوگ یہ سوچنے کو مجبور ہوئے کہ لاتعلقی کا یہ اظہار ”دباﺅ“ کا نتیجہ تھا۔حقائق کچھ بھی رہے ہوں ارشد شریف کے دیرینہ ناظرین کی اکثریت یہ سوال اٹھانے میں برحق تھی کہ اسے وطن کیوں چھوڑنا پڑا۔ اس کی الم ناک موت کے بعد ایسے ہی افراد سوشل میڈیا پر جو سوالات اٹھارہے ہیں ان کی بابت غضب ناک محسوس کرنا مناسب نہیں۔

ہماری ریاست اور حکومت کے لئے لازمی ہے کہ اپنے وسائل اور سفارتی تعلقات کو پرخلوص دِکھتے بھرپور انداز میں بروئے کار لائے۔صحافیوں کے تحفظ کے نام پرکئی عالمی تنظیمیں بھی متحرک ہیں۔ ان میں سے چند کی ساکھ پر سوالات شاذہی اٹھائے گئے ہیں۔ ہماری حکومت کوایسی کسی تنظیم کی نشاندہی کے بعد اس سے درخواست کرنا چاہیے کہ ارشد شریف کی پُراسرار حالات میں ہلاکت کی صاف وشفاف تحقیقات کی نگرانی کے عمل میں شریک ہو۔ صاف،شفاف اور قابل اعتبار دِکھتی تحقیقات کے بغیرہمارے لوگوں کی بے پناہ اکثریت ارشد شریف کی المناک موت کے بارے میں وہی سوچے گی جواس وقت ان کے دلوں اور ذہنوں پرحاوی ہے۔اس کالم میں بارہا دہراتا رہا ہوں کہ ہم ان دنوں بلھے شاہ کے بیان کردہ”شک شبے داویلہ“ میں جی رہے ہیں۔ ایسا وقت کامل انتشار کی جانب لے جاتا ہے جہاں کوئی بھی شخص خود کومحفوظ تصور نہیں کرتا۔ ارشد شریف کی المناک موت کی صاف،شفاف اور قابل اعتبار دِکھتی تحقیقات ہی افواہ سازی اورسازشی کہانیوں کا اصل تدارک ثابت ہوسکتی ہیں۔ریاستی رُعب ودبدبہ اس ضمن میں کسی کام نہیں آئے گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: