نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباً ہر شخص جبلی طورپر دوسرے انسانوں کی توجہ کا طلب گار ہوتا ہے۔ فیس بک، انسٹا گرام اور ٹویٹر جیسے پلیٹ فارم ایجاد کرنے والوں نے مذکورہ کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔لوگوں کو آسانی فراہم کردی کہ جب چاہے کچھ بھی کرتے یا کہتے ہوئے اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی بدولت لوگوں کی توجہ اپنی ذات اور خیالات کی جانب کھینچنے کی کوشش کریں۔ یو ٹیوب جیسے پلیٹ فارموں نے ایسے افعال کو Monetize بھی کر دیا۔ گھر بیٹھے ”لاکھوں ڈالر“ کمانے کے خواب دکھائے اور اکثر نوجوان ان کے حصول میں مصروف ہو گئے۔
سوشل میڈیا نے جو رحجانات متعارف کروا دئے ہیں ان کا توڑ ممکن نہیں۔ ریاست اس کام میں الجھ جائے تو اسے ”غیر مہذب یا تخریبی خیالات کا فروغ“ ناممکن بنانے کے لئے لاکھوں جتن کرنا پڑتے ہیں۔ہمارے دوست چین نے مثال کے طورپر فقط اپنے ملک کے مخصوص سرچ انجن یا باہمی گفتگو کے پلیٹ فارم بنا رکھے ہیں۔ معاشی اعتبار سے پاکستان جیسے کمزور ممالک چین کی نقالی کے قابل نہیں۔ روس نے کئی برسوں تک سوشل میڈیا کے بین الاقوامی پلیٹ فارموں کو برداشت کیا۔یوکرین پر حملہ آور ہو جانے کے بعد اس کا صبر بھی لیکن جواب دے گیا۔ بھارت بھی اپنی افرادی قوت کے بل بوتے پر سوشل میڈیا کو اس کی اوقات میں رکھنے کے لئے لاکھوں جتن کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا کی بدولت پھیلا ہیجان مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ بطور صحافی کئی مہینوں سے میں ذاتی طورپر اس فکر میں مبتلا ہوں کہ ”نوائے وقت“ جیسے روایتی اخبار کے لئے کالم لکھتے ہوئے مجھ جیسے عامل صحافی بھی فقط ان موضوعات تک محدود رہتے ہیں جن کے بارے میں لکھا جائے اور چھپ جانے کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی موجود ہو تو ہماری تحریر کو زیادہ سے زیادہ لائیک اور شیئر ملیں۔ سوشل میڈیا کی بدولت ستائش کی ہوس ہمیں کئی ایسے موضوعات سے لاتعلق رکھتی ہے جو لاکھوں پاکستانیوں کی روزمرہّ زندگی کے لئے اہم ترین ہیں۔ ان کی بابت غفلت اختیار کرتے ہوئے ہم درحقیقت پیشہ ورانہ کوتاہی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بھول چکے ہیں کہ ”صحافت“ کا بنیادی فریضہ ”خبر“ دینے کے علاوہ لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دینے والے چند معاملات کے بارے میں ٹھوس معلومات فراہم کرنا بھی ہے۔
شہری متوسط طبقہ کی بے پناہ اکثریت ان دنوں عمران خان صاحب کے فرمودات کے علاوہ کچھ پڑھنا اور دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ گزشتہ کئی دنوں سے میرے لکھے کئی کالم بھی تواتر سے عمران خان صاحب کے ذکر سے شروع ہوکر اس پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے میں آپ کو اب تک یہ ”اطلاع“ دینے میں قطعاًناکام رہا کہ گزشتہ دو مہینوں سے ہمارے ہاں دودھ دینے والے مویشی ایک خوفناک وبا کی زد میں ہیں۔اس کی وجہ سے ہزاروں جانور مرچکے ہیں۔یہ وبا برقرار رہی تو ہمارے ہاں دودھ کی شدید قلت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ممکنہ قلت سے زیادہ اہم مگر یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں لاکھوں گھرانے اپنے ہاں پالے چند مویشیوں کا دودھ بیچ کر روزمرہّ اخراجات کے لئے رقم جمع کرتے ہیں۔ ان کا مویشی وبا کا شکار ہوجائے تو واقعتا جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ ان کے اس دکھ کا مگر ہمارے اخبارات اور روایتی میڈیا میں کماحقہ ذکر نہیں ہو رہا۔
جس وبا کا میں ذکر کر رہا ہوں اسے Lumpy Skin Disease پکارتے ہیں۔یہ بنیادی طورپر مچھر کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ا س کا لگایا ”ڈنگ“ دودھ دینے والے مویشی کے خون میں زہریلے جراثیم شامل کر دیتا ہے۔ وہ جراثیم بتدریج مویشی کی کھال پر ”دانوں“ کا جال بچھا دیتے ہیں۔ ساری جلد پھنسیوں سے بھرجاتی ہے۔ چند دن گزرجانے کے بعد مویشی کے جسم میں پھیلی پھنسیاں کراہت آمیز پھوڑوں میں بدل جاتی ہیں۔ مویشی ان سے بے بس ہوکر کھانا پینا چھوڑ کر کامل بے بسی کے عالم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
یہ بیماری ہمارے خطے کے لئے قطعاً نئی تھی۔ ہمارے ہاں پالے مویشیوں کو صحت مند رکھنے کے لئے عموماََ جو ویکسین باقاعدگی سے لگائی جاتی ہیں وہ مذکورہ وبا کا موثر تدارک نہیں۔ ہمارے ہاں مویشیوں کے ”باڑوں“ میں ویسے بھی صفائی ستھرائی کا نہایت توجہ سے بندوبست یقینی نہیں بنایا جاتا۔ مچھر ایک غول کی صورت جانوروں پر بھنبھناتے رہتے ہیں۔ عموماً انہیں گوبر کے ڈھیر میں سلگائی آگ سے اٹھے دھویں سے بھگانے کی کوشش ہوتی ہے۔
میری اطلاع کے مطابق ابھی تک جو مویشی مذکورہ وبا کی زد میں آئے تھے ان کی 80 فیصد تعداد جانبر نہ ہوپائی۔ اموات کے اس خوفناک تناسب کی وجہ یہ حقیقت تھی کہ ہمارے”ڈنگر ڈاکٹروں“ کی اکثریت کے پاس مذکورہ وبا کا شافی علاج موجود ہی نہیں تھا۔ وبا کی زد میں آئے مویشی کو وہ ضرورت سے زیادہ اینٹی بائیوٹک انجکشن یا پنسلین سے بنائے ٹیکے لگاکر بچانے کی کوشش کرتے رہے۔جو ”تکے“ لگائے گئے وبا کی زد میں آئے مریض کو شفا فراہم کرنے کے بجائے اسے مزید کمزور بناتے رہے۔
شہری متوسط طبقے کی ترجیحات کے غلام ہوئے مجھ جیسے صحافیوں کو اندازہ ہی نہیں کہ دودھ دینے والے مویشیوں میں جو وبا پھیل رہی ہے اس نے ہزاروں نہیں لاکھوں خاندانوں کو باﺅلا بنا رکھا ہے۔ انہیں پالنے والے دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے مویشی کے خون سے ”زہر نکالنے“ کی کوشش کررہے ہیں۔ جو ”ٹوٹکے“ نسلوں سے انہیں بتائے گئے تھے مگر اس مرض میں کام نہیں آرہے۔ماہر ڈاکٹر کی نگرانی لازمی ہے۔ ایسا ڈاکٹر ایک ”پھیرے“ کے کم از کم ہزار روپے طلب کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ جو ادویات کا نسخہ تیار کرتا ہے انہیں خریدنے کو بھی کم از کم پانچ سے دس ہزار روپے درکار ہوتے ہیں۔ یہ خرچہ دو یا تین گائیں رکھنے والے شخص کی بساط سے کہیں زیادہ ہے۔ آفت اور وبا کے اس عالم میں میرے اور آپ کی ”مائی باپ“ ہوئی ”سرکار‘ ‘کہیں نظر ہی نہیں آرہی۔ دودھ دینے والے مویشیوں اور ان کے دئیے دودھ سے اپنے رزق کے محتاج ہوئے لاکھوں پاکستانیوں کو مشکل کی اس گھڑی میں ”سرکار“ نے سفاکانہ بے نیازی سے بھلارکھا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر