مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پروفیسر کرار حسین عام استاد نہیں تھے۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر کرار حسین عام استاد نہیں تھے، اساتذہ کے استاد تھے۔ ان کے بارے میں پہلے بھی لکھا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے کئی تعلیمی اداروں میں پڑھایا۔ کئی کالجوں کے پرنسپل، بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اسلامک ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں پروفیسر حسن عسکری، جمیل جالبی، انتظار حسین اور سلیم احمد جیسے نام شامل ہیں۔ جوہر حسین، سینیٹر تاج حیدر، پروفیسر شبیہہ حیدر، پروفیسر شائستہ زیدی اور صادقہ صلاح الدین جیسی اولاد نے بھی باپ کا نام روشن کیا۔
پروفیسر کرار حسین ترقی پسند تھے لیکن الحاد والے ترقی پسند نہیں۔ وہ قرآن کے عالم تھے اور امام حسین سے لگاؤ رکھتے تھے۔ مجلسیں بھی پڑھتے تھے جنھیں ایک استاد کے لیکچر سمجھ لیں۔ ان کی مجلسوں کی دو کتابیں میرے پاس ہیں۔
ایسے ہی ایک اور عالم سید محمد تقی تھے۔ شفیق الحسن ایلیا کے بیٹے اور رئیس امروہوی اور جون ایلیا کے بھائی۔ خود بھی بڑے فلسفی تھے۔ روزنامہ جنگ کے طویل عرصہ ایڈیٹر رہے۔ کارل مارکس کی داس کیپٹل کا ترجمہ کیا۔ ان کی ایک کتاب کربلا، تہذیب کا مستقبل ہے۔
ایک ممتاز ادیب ہوش بلگرامی تھے جن کی خودنوشت مشاہدات کو اردو کی بہترین آپ بیتیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے نیاز فتح پوری کے پرچے نگار میں ہماری بت پرستیاں کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں رسوم عزاداری پر ناقدانہ تبصرہ کیا گیا تھا۔ اس پر لے دے ہوئی۔ یاد رہے کہ ہوش بلگرامی شیعہ تھے اور شیعوں ہی کا ردعمل سامنے آیا۔ وہ مضمون اور ردعمل بعد میں کتابی صورت میں چھپا۔ میرے پاس جو کتاب ہے اس میں چند صفحات غائب ہیں اس لیے میں نے نگار کے اصل شمارے کا مضمون ریختہ سے نقل کرلیا ہے۔
ان تینوں صاحبان علم و دانش کی کتابیں گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں جمع کردی ہیں۔ اس کا لنک کتب خانے والے گروپ میں دے دیا ہے۔ یہ مدرسوں کے علما یا مذہبی رہنما نہیں ہیں۔ ایسے دانشور کربلا اور عزاداری کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا لکھتے ہیں، یہ بھی جاننا چاہیے۔ شعور کے دریچے وا کرنے کے لیے انھیں بھی پڑھنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: