نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستر سے باہر نکلتے ہی یہ کالم لکھنے کے بجائے مجھے دوپہر بارہ بجے تک انتظار کرنا پڑا۔ وجہ اس کی وفاقی کابینہ کی حلف برداری تھی جس کی تشکیل میں تاخیر عوام کی کثیر تعداد کو یہ سوچنے کو مجبور کر رہی تھی کہ عمران خان صاحب کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ان کے سیاسی مخالفین منتشر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ مذکور تاثر اگرچہ محض ایک حد تک درست تھا۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ماضی کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں عمران خان صاحب سے جدا کی گئی ”اتحادی“ جماعتوں کو ہر صورت مطمئن رکھنا چاہ رہی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کو راضی رکھنا بھی مقصود تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی جماعت پر خلوص شدت سے خواہش مند تھی کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری بھی ”قومی حکومت“ دِکھتی کابینہ میں شامل ہوں۔ انہیں وزیر خارجہ کے ساتھ ”نائب وزیر اعظم“ والا تشخص فراہم کرنے کا بھی وعدہ ہوا۔ تحریک انصاف کے کائیاں سیاستدان شاہ محمود قریشی مذکورہ خواہش سے بخوبی واقف تھے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے منعقدہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کا نام لیتے ہوئے طنز کے نشتر برسائے۔ اس امر پر منافقانہ حیرت کا اظہار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے عہد ساز وزیر خارجہ کا نواسہ شہباز شریف جیسے ”عادی مجرم“کی کابینہ میں شامل ہونے کو ”تیار“ ہے۔ آصف علی زرداری موصوف کی ”حیرت“ پر ہکا بکا نظر آئے۔ ملتان کے مخدوم نے مگر پنجابی محاورے کے مطابق اپنا ”کام دکھا دیا“۔
شاہ محمود قریشی کی لگائی ”تیلی“ کے بعد ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکنوں اور جیالوں کی بے تحاشہ تعداد اپنی قیادت کو یہ پیغام پہنچانا شروع ہو گئی کہ بھٹو کے نواسے اور بی بی کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کی قیادت تلے حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ ایک ”تاریخی“ جماعت کے چیئرمین ہوتے ہوئے جو ”نظریاتی شناخت“ کی حامل بھی ہے بلاول بھٹو زرداری وزارت عظمیٰ کے مستحق ہیں۔ انہیں اس مقام تک پہنچنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔
اصولی طورپر ان کی خواہش برحق تھی۔ عملی سیاست کے مگر اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تقاضوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت خارجہ کا منصب قبول کرلینا چاہیے تھا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق چند غیر سیاسی مگر ہمارے ہاں اقتدار کی حرکیات کو خوب سمجھنے والے چند اہم افراد نے بھی آصف علی زرداری سے تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں میں بلاول بھٹو زرداری کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کو راغب کرنا چاہا۔ غالباََ ان کی رائے کی وجہ سے گزرے ہفتے کی رات آصف علی زرداری کی شہباز شریف سے جو ملاقات ہوئی اس کے اختتام کے بعد تصور کر لیا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری وفاقی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شمولیت کو آمادہ ہو گئے ہیں۔ میرا وہمی ذہن مگر شک وشبے کا شکار رہا۔ اسی باعث ”مصدقہ“ تصور ہوتے ذرائع کی جانب سے ”تصدیق“ کے باوجود بلاول بھٹو زرداری کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے امکان کو ”خبر“بنانے کو مائل نہیں ہوا۔ میری احتیاط نے منگل کے دن شرمندگی سے بچالیا ہے۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے موجودہ پاکستان میں شناذہی کوئی شخص تاریخ سے رجوع کرنے کی زحمت اٹھاتا ہے۔ اسی باعث پیپلز پارٹی کے دیرینہ ترین جیالے بھی یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ 1970 کے انتخاب کی بدولت ان دنوں کے مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت حاصل کرلینے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین جنرل یحییٰ کی صدارت تلے بنائے وزیر اعظم نورالامین کے ڈپٹی وزیر اعظم بنے تھے اور اس حیثیت میں وزارت خارجہ کا قلم دان بھی سنبھالا تھا۔
نورالامین کا تعلق ان دنوں کے مشرقی پاکستان سے تھا۔ ان دنوں بنگلہ دیش کہلاتے اس خطے میں نورالامین وہ واحد بنگالی تھے جو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے لئے 1970 کے انتخاب کی بدولت منتخب ہوئے تھے۔ جنرل یحییٰ نے شیخ مجیب اور ان کی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے میں غیر ذمہ دارانہ لیت و لعل سے کام لیا۔ بات بالآخر مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن لانچ کرنے تک چلی گئی۔ بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے نورالامین کی قیادت میں ”سیاسی کابینہ“تشکیل دینا پڑی۔
پاکستان کا موجودہ بحران 1970 جیسا سنگین ترین تو نہیں مگر اندھی نفرت وعقیدت کی بناپر ابھرے ہیجان و تفریق نے ایسی خلفشار یقینا برپا کر دی ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لئے عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین کو یکجا ہو کر ”قومی یکجہتی“ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ وفاقی کابینہ میں شامل ہوکر بلاول بھٹو زرداری مذکورہ تناظر میں شہباز شریف کے موثر مددگار ثابت ہو سکتے تھے۔
اجتماعی بحران کے علاوہ ہمیں اس حقیقت کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا کہ عمران خان صاحب کے زیر سایہ کام کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی وزارت خارجہ کو تقریباََ مفلوج بنائے رکھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے لئے یہ وزارت اہم ترین معاملات پر اپنا نہایت محنت اور صلاحیت سے تیار کردہ ”اِن پٹ (Input)“دینے سے خوف کھاتی اور ہچکچاتی رہی۔ بے عملی کی اس فضا نے سفارتی محاذ پر پاکستان کے لئے شرمندگی اور مشکلات کے بے تحاشہ واقعات دکھائے۔ عملی صحافت سے کنارہ کش ہوئے مجھے دس برس گزر چکے ہیں۔ گھر میں گوشہ نشین ہو جانے کے باوجود مجھے اس ضمن میں کئی معاملات کا تفصیلی علم ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اگر وزارت خارجہ کا منصب سنبھالتے تو ہمارے سفارت کار بہت پراعتماد محسوس کرتے۔ وہ اپنی قد آور شخصیت کی بدولت ہماری سفارت کاری کو متحرک وتوانا بنا سکتے تھے۔ ان کی بطور وزیر خارجہ شہباز حکومت میں شمولیت دنیا کو یہ پیغام بھی دیتی کہ پاکستان نے دنیا کے دیگر ممالک کیساتھ جو رویہ اختیار کر رہا ہے اسے ہماری سیاسی جماعتوں کی اکثریت پشت پناہی میسر کر رہی ہے۔
عمران خان صاحب نے جس انداز میں واشنگٹن سے آئے ”دھمکی آمیز“ خط کا معاملہ اچھالا ہے اس نے پاکستان کے دیرینہ دوست اور خیر خواہ ممالک کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ ان کے حکام اب ہمارے سفارت کاروں سے کھل کر بات کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بطور وزیر خارجہ انہیں اعتماد دلانے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔ اب یہ فریضہ شہبازشریف کو تن تنہا ہی نبھانا ہو گا۔ ان کے لئے اگرچہ خیر کی خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے حنا ربانی کھر کو وزارت خارجہ کے لئے بطور وزیر مملکت نامزد کیا ہے۔ وہ ایک محنتی خاتون ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران وزارت خارجہ کے منصب پر فائز ہوئیں۔ اس دوران پاکستان کو سفارتی محاذ پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ مگر ان سے قابل ستائش بردباری سے نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی تھیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر