مئی 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاستی اداروں کی مسلسل بڑھتی پریشانی || نصرت جاوید

دُنیا کا نکما ترین سفارت کار بھی ریکارڈ پر لائی گفتگو کے دوران کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے والی دھمکی دینے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرتا۔عمرا ن خان صاحب کے جنونی مداحین اس کا ڈھنڈوراپیٹتے ہوئے دنیا کو محض یہ پیغام پہنچارہے ہیں کہ ان کے حکام کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتوں کے بعد پاکستان کے سفیر اپنے ملک جو رپورٹ بھیجتے ہیں وہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ 1975سے رزق کے لئے محض صحافت پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی اوقات میں نے 2007ہی میں دریافت کرلی تھی۔اس برس جنرل مشرف نے ’’ایمرجنسی-پلس‘‘ کے ذریعے صحافت کو نیک راہ پر چلانے کا جو عمل متعارف کروایا تھا وہ اگست 2018کے بعد اپنا کمال دکھاتا نظر آیا۔کمال کو بھی تاہم قانون تقلیل افادہ کی زد میں آنا ہوتا ہے۔ان دنوں ویسی ہی صورت حال ہے۔’’صحافت‘‘ کا اگرچہ عرصہ ہوا انتقال پرملال ہوچکا ہے۔میری دانست میں ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والے پاکستان کے تندوتلخ حقائق کو منیرؔ نیازی نے اپنی شاعری کے ذریعے حیران کن ہنر مندی سے بیان کررکھا ہے۔ ان کی ایک پنجابی نظم جو ’’مینوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے اعتراف پر ختم ہوتی ہے’’ہونی‘‘ کا ذکر بھی کرتی ہے۔اس نظم میں شاعر نے سمجھادیا ہے کہ جب کوئی بات یا گڑبڑ شروع ہوجائے تو اپنے فطری یا منطقی انجام تک پہنچے بغیر ختم نہیں ہوتی۔قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے کے بعد لہٰذا جو بات شروع ہوئی ہے اسے ’’ہونی‘‘ ہی پر ختم ہونا ہے۔اسے ٹالنے کے لئے اب کوئی ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنا ممکن نہیں رہا۔اپنے نورتنوں کے مشوروں سے عمران خان صاحب اگرچہ ’’ہونی‘‘ تک پہنچنے کے سفر کو طویل سے طویل تر بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ہمارے تحریری آئین کا تقاضہ تھا کہ قومی اسمبلی کے دفتر میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد عمران حکومت مارچ کی 21تاریخ تک مذکورہ ایوان کا اجلاس ہر صورت طلب کرتی۔اس تقاضے سے ڈھٹائی کے ساتھ گریز ہوا۔اب سپریم کورٹ کے روبرو ایک صدارتی ریفرنس بھی پیش کردیا گیا ہے۔اس کے ذریعے کاوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف سے ناراض ہوئے اراکین قومی اسمبلی کو ’’ان کے گھر میں ڈرا‘‘ دیا جائے۔ ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے خوف سے وہ عمران خان صاحب کے خلاف ووٹ ڈالنے سے قبل سو بار سوچیں۔تحریک انصاف سے بغاوت کو آمادہ جو اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو آچکے ہیں اپنی رائے مگر اب کسی صورت نہیں بدلیں گے۔ان کی اکثریت ’’خاندانی‘‘ سیاست دانوں پر مشتمل ہے۔ان کے ڈیرے اور دھڑے ہیں۔کیمروں کے روبرو آجانے کے بعد ان کے خلاف ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے وزیر اعظم کے مصاحبین نے جو زبان استعمال کی ہے اس کے بعد وہ اپنی رائے بدلنے کے متحمل ہوہی نہیں سکتے۔ان میں سے چند اراکین کے گھروں کے باہر جمع ہوئے لونڈے لپاڑوں نے انہیں ’’بکری‘‘ بنانے کی کوشش بھی کی۔اپنے کارکنوں کی جانب سے اپنائے جارحانہ رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے ایک ’’مشفق والد‘‘ کی طرح ناراض اراکین کو ’’معاف‘‘ کردینے کی پیش کش کی۔ایسا کرتے ہوئے مگر بھول گئے کہ ڈیروں اور دھڑوں والے کامل بے عزتی کے بعدمعافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ ’’انج اے تے فیر انج ای سئی‘‘ والا رویہ اختیار کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔اپنے خلاف ہوئی بغاوت پر قابو پانے کے لئے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی سپریم کورٹ کے ذریعے ’’تشریح‘‘ کی طلب گار ہوتے ہوئے عمران حکومت اس حقیقت کو فراموش کرچکی ہے کہ ہمارے ہاں 1993کا برس بھی آیا تھا۔اس برس کے اپریل میں آٹھویں ترمیم کے اختیارات سے مالا مال صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔نواز شریف نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔روزانہ ہوئی سماعت کے بعد ان دنوں کی سپریم کورٹ نے برطرف ہوئی حکومت کو بحال کردیا۔اس ضمن میں جو فیصلہ تحریرہوا اسے ان دنوں کے سپیکر گوہر ایوب نے پارلیمان ہائوس کی دیواروں پر کندہ کرنے کا حکم دیا۔پارلیمان کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے آج بھی وہ ’’تاریخی فیصلہ‘‘ آپ دیواروں پر لکھا ہوا پڑھ سکتے ہیں۔اس کے ہوتے ہوئے بھی لیکن 1996میں جسٹس سجاد علی شاہ کی سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو قانونی اور آئینی اعتبار سے واجب ٹھہرایا۔ 12اکتوبر1999کی رات منتخب حکومت کے خلاف جنرل مشرف کے لئے اقدامات بھی سپریم کورٹ ہی کے ہاتھوں ’’حلال‘‘ ٹھہرائے گئے تھے۔سیاسی بحران کا اعلیٰ عدالتوں کے پاس’’حل‘‘ میسر ہی نہیں ہوتا۔ فرض کرلیتے ہیں کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ یہ طے کردیتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران تحریک انصاف کا کوئی رکن قومی اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف ووٹ ڈالے گا تو تاحیات اسمبلی کی رکنیت کا اہل نہیں رہے گا۔ ایسا فیصلہ اگر آیا تب بھی عمران حکومت کو استحکام فراہم نہیں کرپائے گا۔تحریک عدم اعتماد پر گنتی سے قبل قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے افراد ’’تاحیات نااہلی‘‘ کے دام کو جل دے سکتے ہیں۔اس کی بدولت اپوزیشن جماعتیں اپنی تحریک کی حمایت میں 172اراکین دکھانے میں شاید ناکام رہیں۔ اس کے بعد مگر عمران خان صاحب بھی 342کے ایوان میں اکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ناراض ا راکین اگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوگئے تو اپوزیشن جماعتیں مجبور ہوجائیں گی کہ ان کی ’’قربانی‘‘ کو اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے ذریعے ’’خراج‘‘ پیش کریں۔اس کے نتیجے میں 150سے زیادہ نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ کروانا ہوں گے۔ ’’سیاسی بحران‘‘ اس کی بدولت گھمبیر سے گھمبیر تر ہوجائے گا۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ نکالنے کے مشورے دیتے’’مفکرین‘‘ مگر سیاسی حرکیات کی ایسی مبادیات سے کاملاََ غافل نظر آرہے ہیں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان صاحب اگر خود کو دورِ حاضر کا ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کو تلے بیٹھے ہیں تو مجھے اس پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ مجھ جیسے ’’لفافہ‘‘ صحافیوں کو ویسے بھی تاریخ بنانے کو بے چین دلاوروں کے بارے میں گفتگو کا حق حاصل نہیں۔عمر عزیز کی دو سے زیادہ دہائیاں خارجہ امور کے مشاہدے پر صرف کرنے کی وجہ سے ہاتھ باندھ کر البتہ التجا فقط یہ کرنا ہے کہ جس انداز میں عمران خان صاحب کو مبینہ طورپر امریکی حکام کی جانب سے آئی ’’دھمکی‘‘ کا ذکر ہورہا ہے وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔اس کی وجہ سے عمران خان صاحب شاید وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فقط محروم ہوسکتے ہیں۔ان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مذکورہ عہدے سے فراغت بھی تاہم پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو شدید ترین زک پہنچائے گی۔انہیں معمول پر لانے میں کئی برس ضائع ہوجائیں گے۔

ایک سپر طاقت ہوتے ہوئے امریکہ دنیا کے کئی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا یقینا عادی رہا ہے۔ایران کے مصدق اور چلی کے آلندے کو عبرت کی مثال بنانے میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو بھی اسلامی بلاک بنانے کی تمنا اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جنون کی وجہ سے اس کی آنکھ میں کھٹکتے رہے۔1950کی دہائی سے تاہم پاکستان کو امریکہ نے اپنا ’’اتحادی‘‘ ہی شمار کیا ہے۔ہماری بھرپور معاونت کے بغیر وہ سوویت یونین کی افواج کو افغانستان میں گھیر کر سرد جنگ جیت ہی نہیں سکتا تھا۔ بعدازاں اس ملک کو ’’دہشت گردی‘‘ کی مبینہ آماجگاہ میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لئے بھی وہ ہماری مدد کا طلب گار رہا۔
پاکستان کی حکمران اشرافیہ امریکہ کی اتحادی نہ ہوتی تو ہمارے ہاں جنرل ایوب،ضیا اور مشرف جیسے دیدور کامل اختیارات کے ساتھ دس دس برس تک ہمارے آقا نہ رہے ہوتے۔ ان کے ادوار میں پاکستان کے عوام بے اختیار رعایا ہی رہے۔آج بھی ہمیں اپنے ’’منتخب‘‘ ہوئے آقائوں کے روبرو بھی سوالات اٹھانے کا حق میسر نہیں ہے۔حکمرانوں کی من مانیاں غلاموں کی طرح برداشت کرتے رہتے ہیں۔

امریکہ کے ساتھ ’’دوستی‘‘ نے تاہم ہمارے کئی ریاستی اداروں اور مختلف دھندوں کے اجارہ دار سیٹھوں کو بے پناہ قوت اور خوش حالی سے مالا مال کیا ہے۔و ہ امریکی سرپرستی کے بغیر اپناجاہ وجلال برقرار نہیں رکھ سکتے۔ میری دانست میں عمران خان صاحب امریکہ سے متھا لگانے کا جو سوانگ رچارہے ہیں وہ بالآخر ان بالادست طبقات ہی کے لئے پریشانی کا باعث ہوگا۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی تو نسلوں سے عزت وذلت کے عادی بن چکے ہیں۔

اپنے حامیوں کی متاثر کن تعداد کو گزرے اتوار کے روز اسلام آباد بلاکر عمران خان صاحب نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ہوا میں لہرایا۔ دعویٰ کیا کہ وہ کاغذ در حقیقت ایک چٹھی ہے جس کے ذریعے انہیں ملک کی (خارجہ) پالیسی نہ بدلنے کی صورت سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔وزیر اعظم صاحب نے دھمکی دینے والے ملک یا ممالک کا نام نہیں لیا۔ ان کے مخالفین نے جب ’’دھمکی آمیز‘‘ خط کے بارے میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا تو عمران خان صاحب کے دل وجان سے گرویدہ مصاحبین نے انہیں ساری کہانی کھول کر بیان کردینے کو اُکسایا۔یہ مگر طے نہ کر پائے کہ مکمل داستان عام پاکستانیوں کے روبرو کیسے لائی جائے۔
بالآخر بدھ کے روز وزیر اعظم صاحب نے پاکستان کے چند سینئر ترین،باوقار اور عوام میں بے پناہ مقبول صحافیوں کو ’’وہ چٹھی‘‘ دکھانے کا فیصلہ کیا۔اصل ’’خط‘‘ اگرچہ انہیں بھی دکھایا نہیں گیا۔اس کے مندرجات مگر تفصیل سے بیان کردئیے گئے ۔صحافیوں سے ہوئی ملاقاتیں ’’آف دی ریکارڈ‘‘ رکھنا ناممکن ہے۔ریٹنگ کے متلاشی سٹار اینکروں کے لئے گھماپھرا کر بات کرنا ویسے بھی ان کے دھندے میں مندی لاتا ہے۔ سکرین پررونق لگانے کے لئے و ہ دبنگ انداز میں ہر بات برملا بیان کردینے کو مجبور ہوتے ہیں۔
بدھ کی شام تک ٹی وی سکرینوں پر برپا ہوئے شور شرابے سے بالآخرہم عامیوں کو یہ علم ہوا کہ مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران امریکی وزارت خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیاء کی پاکستان کے سفیر کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی۔مذکورہ ملاقات میں ہمارے سفیر کو بتایا گیا کہ عمران خان صاحب پاکستان کے ریاستی اداروں کو اعتماد میں لئے بغیر تن تنہا روس کے صدر پوٹن سے دوستی بڑھانا چاہ رہے ہیں۔امریکہ کو یہ دوستی ہرگز گوارہ نہیں۔بہتر یہی ہوگا کہ عمران خان صاحب اپنا رویہ بدلیں۔ پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کے حوالے سے ’’آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹ آئیں۔ وگرنہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی۔ وہ فارغ ہوجائیں گے۔تحریک عدم اعتماد انہیں ہٹانے میں اگر ناکام رہی تو پاکستان کو امریکہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔

جو کہانی سنائی گئی ہے وہ عمران خان صاحب تک براہِ راست ’’خط‘‘ کے ذریعے نہیں پہنچی تھی۔ جس گفتگو کا ذکر ہورہا ہے وہ و اشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر سے ہوئی۔انہوں نے دیگر ممالک میں تعینات سفیروں کی طرح اپنے ساتھ ہوئی گفتگو من وعن اسلام آباد بھجوادی۔عموماََ ایسی گفتگو کو رپورٹ کرتے ہوئے سفرا اپنے مشاہدات اور رائے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں۔

ہمارے سفیر کے ساتھ امریکی افسر نے جو گفتگو کی ہوگی وہ اس کے ہمراہ گئے Note Takerنے تاریخ کے لئے بھی رقم کردی ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا ہر افسر گفتگو کو ریکارڈ پر لانے والے ’’منشی‘‘ کے بغیر غیر ملکی نمائندوں سے باقا عدہ مذاکرات کے حق سے محروم ہے۔یہ سہولت وہاں کے طاقت ور ترین صدر کو بھی میسر نہیں۔

حالیہ تاریخ میں کارگل بحران ہوا تھا۔اس کے حل کے لئے امریکہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے نواز شریف 4جولائی 1999کے دن ہنگامی طورپر واشنگٹن پہنچ گئے۔اس دن امریکہ اپنے یوم آزادی کی تقریبات میں مصروف ہوتا ہے۔ان دنوں کے صدر کلنٹن نے اس کے باوجود نواز شریف صاحب سے ملاقات کا وقت نکالا۔ ان دونوں کے مابین نظر بظاہر ’’ون آن ون‘‘بات چیت کا فیصلہ ہوا۔ مذکورہ بات چیت کے درمیان پاکستان کی جانب سے نواز شریف تو اکیلے بیٹھے تھے۔ امریکی صدر کے ساتھ مگر نوٹس لینے کو ایک سینئر افسر کمرے میں بیٹھا رہا۔بعدازاں اس نے اپنی لکھی ایک کتاب میں اس دن ہوئی بات چیت کا ذکر بھی کیا ہے۔

عمران خان صاحب کو ’’دھمکی‘‘ والی داستان کا جنونی انداز میں ڈھونڈورا پیٹنے والے مصاحبین اور سینئر ترین صحافیوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس ملاقات کا ذکر ہورہا ہے اس میں ہوئی گفتگو تحریری طورپر ریکارڈ ہوئی ہے۔میں ہرگز حیران نہیں ہوں گااگر امریکی حکام نے اس گفتگو کی آڈیوریکارڈنگ بھی کرلی ہو۔پاکستان میں عمران خان صاحب کے مداحین نے اگر مذکورہ گفتگو کی بابت اپنے ورژن پر ڈٹے رہنے کا ارادہ باندھ لیا تو امریکہ کا کوئی مؤقر اخبار وہاں کی عدالتوں سے رجوع کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ مذکورہ گفتگو کا ریکارڈ منظر عام پر لائے۔حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے عدالتی مداخلت کے ذریعے افغانستان کے بارے میں ہوئے مباحث اور وہاں مقیم فوجیوں کے مختلف تحقیقات کے دوران دئے بیانات تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس کی بدولت ایک ضخیم کتاب بھی تیار ہوئی ہے جسے ’’افغان پیپرز‘‘ کہاجاتا ہے۔

خدانخواستہ اگر مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر اور امریکی حکام کی گفتگو کا ریکارڈ مذکورہ بالا رویہ اختیار کرتے ہوئے پبلک کے روبرو لایا گیا تو فیصل واوڈاصاحب جیسے افراد منہ چھپانے کو مجبور ہوجائیں گے جو بدھ کے روز ٹی وی کیمروں کے روبرو مسلسل اصرار کرتے رہے کہ عمران خان صاحب کو ’’قتل کی دھمکی‘‘ بھی دی گئی ہے۔

دُنیا کا نکما ترین سفارت کار بھی ریکارڈ پر لائی گفتگو کے دوران کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے والی دھمکی دینے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرتا۔عمرا ن خان صاحب کے جنونی مداحین اس کا ڈھنڈوراپیٹتے ہوئے دنیا کو محض یہ پیغام پہنچارہے ہیں کہ ان کے حکام کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتوں کے بعد پاکستان کے سفیر اپنے ملک جو رپورٹ بھیجتے ہیں وہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔حاکم کو خوش رکھنے کے لئے ایسی رپورٹوں میں ضرورت سے زیادہ ’’مٹھا‘‘ ڈال دیا جاتا ہے۔ایسے تاثر کے ہوتے ہوئے ہمارے دوست ممالک کے حکام بھی ہمارے سفراء کو ملاقات کا وقت دینے سے قبل سو بار سوچیںگے۔پاکستان کی وزارت خا رجہ کے تجربہ کار اور انتہائی تربیت یافتہ افسر مجھے کامل یقین ہے ان دنوں اپنے سرہاتھوں میں لئے بیٹھے ہوں گے۔ریاستی اداروں کی پریشانی بھی مسلسل بڑھ رہی ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: