مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ||ظہور دھریجہ

(ن) لیگ نے پورے صوبے میں ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے کو میڈیا کے ذریعے پنجاب کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں پنجاب میں نواز شریف نے حکومت بنائی اور وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو اس قدر زچ کر دیا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میری حکومت فیض آباد پنڈی سے شروع ہو کر مری تک ختم ہو جاتی ہے ۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد اور حالیہ دنوں میں متنازع ’’مراسلہ‘‘ کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ میں استعفیٰ نہیں دوں گا، تحریک عدم اعتماد پر جو بھی فیصلہ ہو گا طاقتور ہوکر واپس آئوں گا، دھمکی آمیز خط ایک طاقتور ملک نے لکھا جس میں کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہے تو پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب کہ امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے آئینی عمل کا احترام کرتے ہیں ،دھمکی آمیز خط کے الزامات میں صداقت نہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہر بڑا ملک ہر چھوٹے اور ترقی پذیر ملک کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے جو کہ کسی بھی ملک کی خود مختاری کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میںکہ ’’ امریکا نہیں کسی اور ملک سے پیغام آتا ہے‘‘۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے امریکی دھمکی پر قائم مقام امریکی ڈپٹی چیف آف مشن کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاجی مراسلہ تھمایا دیا ہے۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ خط کے معاملے پر تحقیقات ہونی چاہئیں اور پاکستان کے خلاف سازش کی گئی ہے تو اس بارے میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے ۔ سازش کرنے والوں کو بے نقاب کرنا چاہئے۔ تحقیقات والے معاملہ پر توجہ نہیں دی جا رہی جبکہ حکومت کی طرف سے خط کے معاملے کو اچھالا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے قوم سے جو خطاب کیا اس کا مرکزی نقطہ بھی یہی خط ٹھہرا، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اتوار کو ووٹنگ میں ملک کی سمت کا فیصلہ ہوگا۔وزیر اعظم کے خطاب کے بعد تجزیہ نگاروں کی طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 7مارچ کو امریکا نے ایک پاکستانی سفارت کار کے ذریعے عمران خان کو دھمکی دی تو عمران خان نے 21 مارچ کو پاکستان میں ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس میں امریکہ نمائندے کو کیوں بلایااور امریکی سفیر سے جواب طلبی کیوں نہیں کی؟ حکومت اور اپوزیشن کی جاری کشمکش میں ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ نیا نہیں ہے، عمران خان کو سلیکٹڈ کہا جاتا رہا کہ وہ عوامی جمہوریت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ بیساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آئے، جبکہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو سب ایسے ہی اقتدار میں آئے ، کل عمران خان کو دوش دیا جا رہا تھا آج عمران خان دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ ایمپائر کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہئے۔ آج اگر بیانات پڑھیں تو سب کی نظریں راولپنڈی کے گیٹ نمبر 4 کی طرف ہیں۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ذمہ داران آگے بڑھیں اور فوری منصفانہ انتخابات کا اعلان کرائیں۔ شیخ رشید کے ایک سطر کے بیان میں بہت سی باتیں پوشیدہ ہیں ، ایک تو یہ کہ انہوں نے شکست تسلیم کرتے ہوئے مقتدر قوتوں سے کہا ہے کہ ڈیڑھ سال کی بجائے ایک ماہ بعد یعنی رمضان شریف کے بعد الیکشن کرائے جائیں جبکہ اپوزیشن کی طرف سے قبل از وقت الیکشن کی بات کی جاتی تھی تو اسے حکومت کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت کو مشکل میں کس نے ڈالا؟ نوابزادہ نصر اللہ خان کی ٹانگہ پارٹی تھی مگر پاکستان کی سیاست ان کے گرد گھومتی رہی ، اصغر خان ،عمران خان کی طرح پاپولر تھے مگر ان کی جماعت کا آج نام و نشان تک نہیں ، آصف زرداری کو کوئی مجبوری نہیں کہ وہ عمران خان کا تختہ الٹ کر اقتدار شہباز شریف کی جھولے میں ڈالیں، مگر ان کو بھی مجبور کر دیا گیا ، زیادہ قصور مشیروں کا ہے جنہوں نے سیاسی مخالفین کیخلاف الزامات کے کلچر کو سیاست کا حصہ بنایا مگر ہمیشہ ذمہ داری کپتان پر عائد ہوتی ہے ، آصف زرداری نے اپنے پتے خوب کھیلے، پنجاب کو میاں برادران سے بچانے اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی گنجائش پیدا کرنے کیلئے وہ چوہدری پرویز الٰہی کو آگے لائے مگر چوہدری پرویز الٰہی اپنے فیصلے کی وجہ سے آئوٹ ہو گئے، اب وہ وزیراعلیٰ کے امیدوار ہیں، جس طرح سندھ کارڈ آصف زرداری کے پاس ہے اسی طرح پنجابی کارڈ میاں نواز شریف کے پاس ہے، چوہدری پرویز الٰہی کھیلنا بھی چاہیں تو یہ کارڈ نہیں کھیل سکتے۔ سیاسی تاریخ کا علم رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ 1988ء میں نواز شریف نے پنجابی کارڈ کھیل کر سیاست کی کایا ہی پلٹ دی، 1988ء میں پہلے قومی اسمبلی اور دو دن بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن تھے ، قومی اسمبلی کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کو بھر پور اور واضح اکثریت حاصل ہوئی ، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کامیاب ٹھہری، اب دو دن بعد ہونیوالے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں اس کی کامیابی کے واضح امکانات تھے کہ مسلم لیگ ن نے قومی دھارے سے ایک دم پلٹا کھایا اور صوبائیت کی بات پر آ گئے، (ن) لیگ نے پورے صوبے میں ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘کا نعرہ بلند کیا اور اس نعرے کو میڈیا کے ذریعے پنجاب کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں پنجاب میں نواز شریف نے حکومت بنائی اور وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو اس قدر زچ کر دیا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میری حکومت فیض آباد پنڈی سے شروع ہو کر مری تک ختم ہو جاتی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ سب سیاستدان اپنے اپنے کارڈ کھیلتے ہیں مگر وسیب کے جدی پشتی جاگیردار، سیاستدانوں کا کردار چاپلوسی اور چڑھتے سورج کے پجاری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی کارڈ کھیلتے ہیں جیسا کہ صوبے کے نام پر ووٹ لے لئے آگے وزارتیں لیکر مینڈیٹ بیچ دیا،ایسے کارڈ کھیلنے والوںکوووٹ دیتے وقت اب عوام کو سوچنا ہو گا۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: