نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان صاحب اگر خود کو دورِ حاضر کا ذوالفقار علی بھٹو ثابت کرنے کو تلے بیٹھے ہیں تو مجھے اس پر ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ مجھ جیسے ’’لفافہ‘‘ صحافیوں کو ویسے بھی تاریخ بنانے کو بے چین دلاوروں کے بارے میں گفتگو کا حق حاصل نہیں۔عمر عزیز کی دو سے زیادہ دہائیاں خارجہ امور کے مشاہدے پر صرف کرنے کی وجہ سے ہاتھ باندھ کر البتہ التجا فقط یہ کرنا ہے کہ جس انداز میں عمران خان صاحب کو مبینہ طورپر امریکی حکام کی جانب سے آئی ’’دھمکی‘‘ کا ذکر ہورہا ہے وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں نہیں۔اس کی وجہ سے عمران خان صاحب شاید وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فقط محروم ہوسکتے ہیں۔ان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مذکورہ عہدے سے فراغت بھی تاہم پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو شدید ترین زک پہنچائے گی۔انہیں معمول پر لانے میں کئی برس ضائع ہوجائیں گے۔
امریکہ کے ساتھ ’’دوستی‘‘ نے تاہم ہمارے کئی ریاستی اداروں اور مختلف دھندوں کے اجارہ دار سیٹھوں کو بے پناہ قوت اور خوش حالی سے مالا مال کیا ہے۔و ہ امریکی سرپرستی کے بغیر اپناجاہ وجلال برقرار نہیں رکھ سکتے۔ میری دانست میں عمران خان صاحب امریکہ سے متھا لگانے کا جو سوانگ رچارہے ہیں وہ بالآخر ان بالادست طبقات ہی کے لئے پریشانی کا باعث ہوگا۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی تو نسلوں سے عزت وذلت کے عادی بن چکے ہیں۔
جو کہانی سنائی گئی ہے وہ عمران خان صاحب تک براہِ راست ’’خط‘‘ کے ذریعے نہیں پہنچی تھی۔ جس گفتگو کا ذکر ہورہا ہے وہ و اشنگٹن میں تعینات ہمارے سفیر سے ہوئی۔انہوں نے دیگر ممالک میں تعینات سفیروں کی طرح اپنے ساتھ ہوئی گفتگو من وعن اسلام آباد بھجوادی۔عموماََ ایسی گفتگو کو رپورٹ کرتے ہوئے سفرا اپنے مشاہدات اور رائے کا اضافہ بھی کردیتے ہیں۔
ہمارے سفیر کے ساتھ امریکی افسر نے جو گفتگو کی ہوگی وہ اس کے ہمراہ گئے Note Takerنے تاریخ کے لئے بھی رقم کردی ہوگی۔ امریکی وزارت خارجہ کا ہر افسر گفتگو کو ریکارڈ پر لانے والے ’’منشی‘‘ کے بغیر غیر ملکی نمائندوں سے باقا عدہ مذاکرات کے حق سے محروم ہے۔یہ سہولت وہاں کے طاقت ور ترین صدر کو بھی میسر نہیں۔
حالیہ تاریخ میں کارگل بحران ہوا تھا۔اس کے حل کے لئے امریکہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے نواز شریف 4جولائی 1999کے دن ہنگامی طورپر واشنگٹن پہنچ گئے۔اس دن امریکہ اپنے یوم آزادی کی تقریبات میں مصروف ہوتا ہے۔ان دنوں کے صدر کلنٹن نے اس کے باوجود نواز شریف صاحب سے ملاقات کا وقت نکالا۔ ان دونوں کے مابین نظر بظاہر ’’ون آن ون‘‘بات چیت کا فیصلہ ہوا۔ مذکورہ بات چیت کے درمیان پاکستان کی جانب سے نواز شریف تو اکیلے بیٹھے تھے۔ امریکی صدر کے ساتھ مگر نوٹس لینے کو ایک سینئر افسر کمرے میں بیٹھا رہا۔بعدازاں اس نے اپنی لکھی ایک کتاب میں اس دن ہوئی بات چیت کا ذکر بھی کیا ہے۔
عمران خان صاحب کو ’’دھمکی‘‘ والی داستان کا جنونی انداز میں ڈھونڈورا پیٹنے والے مصاحبین اور سینئر ترین صحافیوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جس ملاقات کا ذکر ہورہا ہے اس میں ہوئی گفتگو تحریری طورپر ریکارڈ ہوئی ہے۔میں ہرگز حیران نہیں ہوں گااگر امریکی حکام نے اس گفتگو کی آڈیوریکارڈنگ بھی کرلی ہو۔پاکستان میں عمران خان صاحب کے مداحین نے اگر مذکورہ گفتگو کی بابت اپنے ورژن پر ڈٹے رہنے کا ارادہ باندھ لیا تو امریکہ کا کوئی مؤقر اخبار وہاں کی عدالتوں سے رجوع کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ مذکورہ گفتگو کا ریکارڈ منظر عام پر لائے۔حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ نے عدالتی مداخلت کے ذریعے افغانستان کے بارے میں ہوئے مباحث اور وہاں مقیم فوجیوں کے مختلف تحقیقات کے دوران دئے بیانات تک رسائی حاصل کی ہے۔ اس کی بدولت ایک ضخیم کتاب بھی تیار ہوئی ہے جسے ’’افغان پیپرز‘‘ کہاجاتا ہے۔
خدانخواستہ اگر مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر اور امریکی حکام کی گفتگو کا ریکارڈ مذکورہ بالا رویہ اختیار کرتے ہوئے پبلک کے روبرو لایا گیا تو فیصل واوڈاصاحب جیسے افراد منہ چھپانے کو مجبور ہوجائیں گے جو بدھ کے روز ٹی وی کیمروں کے روبرو مسلسل اصرار کرتے رہے کہ عمران خان صاحب کو ’’قتل کی دھمکی‘‘ بھی دی گئی ہے۔
دُنیا کا نکما ترین سفارت کار بھی ریکارڈ پر لائی گفتگو کے دوران کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے والی دھمکی دینے کی حماقت کا ارتکاب نہیں کرتا۔عمرا ن خان صاحب کے جنونی مداحین اس کا ڈھنڈوراپیٹتے ہوئے دنیا کو محض یہ پیغام پہنچارہے ہیں کہ ان کے حکام کے ساتھ باقاعدہ ملاقاتوں کے بعد پاکستان کے سفیر اپنے ملک جو رپورٹ بھیجتے ہیں وہ حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔حاکم کو خوش رکھنے کے لئے ایسی رپورٹوں میں ضرورت سے زیادہ ’’مٹھا‘‘ ڈال دیا جاتا ہے۔ایسے تاثر کے ہوتے ہوئے ہمارے دوست ممالک کے حکام بھی ہمارے سفراء کو ملاقات کا وقت دینے سے قبل سو بار سوچیںگے۔پاکستان کی وزارت خا رجہ کے تجربہ کار اور انتہائی تربیت یافتہ افسر مجھے کامل یقین ہے ان دنوں اپنے سرہاتھوں میں لئے بیٹھے ہوں گے۔ریاستی اداروں کی پریشانی بھی مسلسل بڑھ رہی ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر