نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو یا تین ہفتے پہلے کی بات ہے۔وقت گزاری کے لئے لیپ ٹاپ کھول کر ٹویٹر پر لگائے مضامین اور پیغامات دیکھ رہا تھا۔اچانک ایک ری ٹویٹ پر نظر پڑی۔امریکہ کے کسی تھنک ٹینک کے لئے کام کرنے والے ایک محقق نے جس کا نام مجھے اب یاد نہیں آرہا افغانستان کے حوالے سے ایک مضمون لکھا تھا۔وہ ری ٹویٹ ہوا۔مذکورہ مضمون کے عنوان نے مجھے چونکا دیا کیونکہ وہ افغانستان پر نگاہ رکھنے کے لئے بھارت میں امریکہ کو فوجی اڈوں جیسی سہولت فراہم کرنے کا عندیہ دے رہا تھا۔
فوری طورپر میں نے اس امکان کو دور کی کوڑی تصور کیا۔بھارت افغانستان کا براہِ راست ہمسایہ نہیں ہے۔وہاں کسی مقام پر امریکہ کو ڈرون اور دیگر طیارے رکھنے کی مودی سرکار اجازت بھی فراہم کردے تو وہاں سے اڑے طیارے کو ہر صورت پاکستان کی فضا سے گزرتے ہوئے افغانستان تک پہنچا ہوگا۔ پاکستان کے لئے ایسے بندوبست کو تسلیم کرنا ممکن نہیں۔
بدھ کی صبح میری شرمندگی کا بنیادی سبب روسی وزیر خارجہ کا ایک بیان تھا۔مذکورہ بیان کے ذریعے موصوف نے دعویٰ کیا کہ امریکہ افغانستان کی فضائی نگرانی کے لئے بھارت سے تعاون کا طلب گار ہے۔روسی وزیر خارجہ کسی تھنک ٹینک کا ملازم نہیں۔تیل وگیس کے ذخائر سے مالا مال اور 1990کی دہائی تک امریکہ کے پائے کی سپرطاقت رہے ملک کا وزیر خارجہ ہے۔امریکہ اور کمیونسٹ روس کے درمیان کئی دہائیوں تک جاری رہی سردجنگ کے دوران غیر جانب داری کا دعوے دار ہوتے ہوئے بھی نہرو اور اس کے وارثوں کا بھارت روس کا قریبی دوست رہا۔1970کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی اندرا گاندھی کی حکومت نے سوویت یونین کے ساتھ ایک جامع دفاعی معاہدہ بھی کیا تھا۔اس معاہدے کی بدولت اندرا حکومت پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے مشرقی پاکستا ن میں فوجی مداخلت کے قابل ہوئی تھی۔
سنا ہے ہمارے ہاں سب پہ بالادست کا ڈرامہ رچاتی ایک منتخب پارلیمان بھی موجود ہے۔اس کے دو ایوان ہیں جن کی خارجہ اور دفاعی امور کی بابت دھانسو نظر آتی کمیٹیاں بھی ہیں۔ ان کمیٹیوں کو بھی لیکن افغانستان کے بارے میں ریاست پاکستان کی ترجیحات کا اتنا ہی علم ہے جتنا میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کو ان دنوں سوڈان اور ایتھوپیا میں جاری خلفشار کی بابت ہوسکتا ہے۔جس ملک کے صحافی اور سیاست دان اہم ترین امور کی بابت بے خبر رہنے کو ترجیح دیں وہاں مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافی کو بھی اپنی اوقات میں رہنا ہوگا۔’’ہورہے گا کچھ نہ کچھ‘‘ سوچتے ہوئے ٹھنڈ پروگرام اور جی بہلانے کو شدت سے اس امکان کا انتظار کہ ہماری کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کا فائنل کس ملک کے خلاف کھیلے گی۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر