اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر عظمیٰ کے نام||سارہ شمشاد

اگرچہ جنوبی پنجاب میں خواتین کے لئے قائم یونیورسٹی کی تعداد کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں جس بارے حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اس نے تو ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کا عوام سے وعدہ کیا تھا
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویمن یونیورسٹی ملتان نے چند برسوں میں جنویب پنجاب بالخصوص ملتان کے تعلیمی حلقوں میں جو مقام بنایا ہے وہ لائق تحسین ہے کہ اس ادارے نے اپنے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اپنی طاقت اس شانداز انداز میں بنایا کہ جنوبی پنجاب کی بڑی خواتین یونیورسٹی سائنسی، تحقیقی، تعلیمی غرض یہ کہ ہر شعبے میں اپنی کامیابی کے جھنڈے تیزی سے گاڑ رہی ہے۔ ویمن یونیورسٹی نے جس کم وقت میں Y کیٹیگری کے لئے اپنے ریسرچ جرنلز کو نامزد کروایا وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہاں کی انتظامیہ اور اساتذہ انتہائی دل جمعی کے ساتھ پروفیشنل انداز میں کام کررہے ہیں اوریوں اس تاثر کو بھی زائل کیا جارہا ہے کہ خواتین اکیلی کچھ نہیں کرسکتیں۔ یہ خواتین اساتذہ اور طالبات کی محنت ہی ہے جو یونیورسٹی میں تعلیمی معیار کو ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر سے بہتر بنانے کے اصول پر گامزن ہیں۔ اسی طرح غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی ویمن یونیورسٹی ملتان اپنی عمدہ کارکردگی دکھارہی ہے۔ تاہم ابھی اس کو مزید بہتری لانے کے لئے اپنی جستجو جاری رکھنی چاہیے۔ بلاشبہ ویمن یونیورسٹی ملتان کی اس شاندار کارکردگی کا سہرا وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو جاتا ہے جو انتہائی جاں فشانی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی ادا کررہی ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود احسن انداز میں چلارہی ہیں جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ اگرچہ انہیں وائس چانسل شپ کے دوران کئی مشکلات اور پریشانیوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑرہا ہے لیکن جس عمدگی کے ساتھ وہ اس ادارے کو کامیاب کرنے کے لئے کوششیں کررہی ہیں وہ وطن عزیز کی خواتین کیلئے مشعل راہ ہونا چاہیے کہ ڈاکٹر عظمیٰ نے اپنے مقصد کے حصول کے لئے تمام تر خدشات اورتنقید کو ایک طرف رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ادارے میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طلبہ داخلہ اس اعتماد اور یقین کے ساتھ لے رہی ہیں کہ سرکاری یونیورسٹی ہونے کے باوجود انہیں یہاں تعلیم کے بہترین مواقع تو ملیں گے ہی بلکہ وہ مخلوط تعلیم کی بہت سی خرافات سے بھی بچ جائیں گی۔
اگرچہ جنوبی پنجاب میں خواتین کے لئے قائم یونیورسٹی کی تعداد کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں جس بارے حکومت کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اس نے تو ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کا عوام سے وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو کے مصداق آج حکومت اپنے اس وعدہ کی تکمیل میں بھی لیت و لعل سے کام لیتی نظر آرہی ہے اور ہر ضلع میں یونیورسٹی تاحال ایک خواب ہے اور اگر کسی ضلع میں خوش قسمتی سے یونیورسٹی کی منظوری دے بھی دی ہے تو اس کو ابھی تک آپریشنل نہیں کیا جاسکا جس کے باعث ان اضلاع کے طلبا کو تعلیم کے حصول کے لئے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑرہا ہے جو غربت اور مہنگائی کے مارے ہوئے والدین کے لئے کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تعلیم کا حصول ہر شہری کا حق ہے اور اگر بات خواتین کی تعلیم کی ہو تو اس طرف حکومت کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کی پرورش پڑھی لکھی اور باشعور مائیں کرسکیں۔
یوں تو ویمن یونیورسٹی میں درجنوں شعبے قائم ہیں لیکن میں ان سطور کے ذریعے وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی ملتان کی توجہ ایک اہم مسئلے کی جانب دلوانا چاہتی ہوں کہ وہ اپنی یونیورسٹی میں سرائیکی کی کلاسز بھی شروع کی جائیں بلکہ کیا ہی بہتر ہو کہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کی طرز پر سرائیکی ریسرچ سنٹر قائم کیا جائے تو اس سے اس خطے کی قابل، محنتی مگر ناخواندہ خواتین کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اگر ویمن یونیورسٹی ملتان میں سرائیکی ریسرچ سنٹر قائم کیا جاتا ہے تو اس سے جہاں سرائیکی خطے کے مضمون کو پروموٹ کرنے کا موقع ملے گا وہیں اس خطے کی شناخت اور کلچر کو بھی بہترین طور پر اجاگر کیاجاسکے گا۔ میرے وسیب کا کلچر اس خوبصورتی سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے کہ اس کو اگر پروموٹ کیا جائے تو ویمن یونیورسٹی ملتان غیرملکی یونیورسٹیز کے ساتھ مل کر اپنی نئی ڈگریز لانچ کرسکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر شعبہ صحافت یا ماس کمیونی کیشن کے شعبے کی طرف توجہ دی جائے تو اس سے یہاں کے فلم، ٹی وی، لکھاری اور دیگر فنون سے وابستہ لوگوں کی خداداد صلاحیتوں سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
پاکستان آج کل جس معاشی دبائو کا شکار ہے یقیناً تعلیمی ادارے بھی اس کی زد میں ہیں تو کیا ہی بہتر ہو کہ اپنے کل کو خوشحال اور بہتر بنانے کے لئے آج بلکہ ابھی سے اس طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ویمن یونیورسٹی ملتان وطن عزیز کی نمائندہ یونیورسٹیز میں شامل نہ ہوسکے۔ اگر میں یہاں پر صرف سرائیکی ریسرچ سنٹر کے قیام کی بات کروں تو یہ ڈیپارٹمنٹ صنعت و تجارت اور کامرس کے ساتھ مل کر جنوبی پنجاب کی ہنر مند اور محنتی خواتین کے جادوئی کمالات اور فن پاروں کو دنیا میں بیچ کر خطیر زرمبادلہ کماسکتا ہے۔ اگر ملتانی کڑھائی کی بات کی جائے تو میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی خواتین سے زیادہ کاری گر ہاتھ کہیں نہیں ملیں گے۔ اگر ٹیکسٹائل کے شعبے کے ساتھ یونیورسٹی معاہدہ کرے تو اس خطے کی بیروزگار مگر ہنرمند خواتین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاکر ایک سلائی سنٹر قائم کرکے وطن عزیز کو زرمبادلہ کماکر دیا جاسکتا ہے۔صرف سلائی کڑھائی نہیں بلکہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ میں طلبا کو بلوپاٹری کے کورسز بھی کروائے جاسکتے ہیں جس سے یونیورسٹی کے لئے ریونیو جنریٹ ہوگا۔ اگر مٹی کے فن پارے بنانے کی بات کروں تو میرے خطے کے فن کاروں کی انگلیاں جادوئی ہیں کہ وہ جس چیز کوبھی ہاتھ لگاتے ہیں وہ نایاب اور باکمال خودبخود بن جاتی ہے۔ اس لئے اگر وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی ویمن یونیورسٹی میں سرائیکی ریسرچ سنٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو اس سے ریسرچ کے شعبے کو بھی خاصی پذیرائی مل سکتی ہے کہ دنیا کے قدیم ترین شہر ملتان کے بہت سے ایسے دریچے ہیں جو ابھی وا ہونے ہیں۔ملتان شہر کافن تعمیر کاشی گری، بلیوپاٹری، سلائی کڑھائی، دبکے کا کام ایسی خصوصیات ہیں کہ اگر ان ہنر مند خواتین کو سہولیات اور ایک پلیٹ فارم میسر آجائے تو جہاں وہ اعتماد کے ساتھ جاکر باوقارانداز میں ذریعہ معاش کا انتظام کرپائیں گی۔ اسی طرح ان شعبوں میں شارٹ کورسز بھی متعارف کرواکر یونیورسٹی ریونیو حاصل کرسکتی ہے۔ سرائیکی ریسرچ سنٹر کے قیام کے لئے وائس چانسلر ویمن یونیورسٹی کی مدد کے لئے ڈاکٹر احسن واگھا۔ ڈاکٹر نخبہ لنگاہ، رانا محبوب اختر سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہیرے بھی میسر ہیں۔ ڈاکٹر عظمیٰ ویمن یونیورسٹی کی ترقی اور بہتری کے لئے چونکہ ہر وقت کوشاں ہیں اور اس ضمن میں انہیں ڈاکٹر اختر ملک سمیت دیگر کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ ان سطور کے ذریعے ہم ڈاکٹر عظمیٰ سے درخواست کریں گے کہ وہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ سرائیکی ریسرچ سنٹر کے قیام کے لئے بھی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں تاکہ اس خطے کی جداگانہ شناخت کو بحال کیا جاسکے یہی نہیں بلکہ سرائیکی مضمون کے ڈگری ہولڈرز کو بھی ملازمتیں میسر آجائیں گی۔ ڈاکٹر عظمیٰ قریشی جہاں میرٹ کی مکمل پاسداری کے لئے کوشاں ہیں تو اس میں مزید جدت لانے کے لئے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ اگر وہ ویمن یونیورسٹی میں سرائیکی ریسرچ سنٹر قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو یہ ان کا اس دھرتی پر احسان عظیم ہوگا اور ان کو سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: