اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"انسان سے جبر کو ہٹایا جائے یا۔۔۔۔”||خضرجسکانی

مجھے غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ مدارس، بورڈنگ سکولز، کالجز اور اکیڈمیز کے برعکس یونیورسٹیوں میں طلباء کو جبری طور پر نہیں پڑھایا جاتا نہ ہی ان پر کسی بھی دوسرے حوالے سے جبر کیا جاتا ہے۔

خضرجسکانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

میں پانچویں کلاس کے بعد مسلسل تعلیم کے سلسلے میں گھر سے باہر رہا ہوں۔ میں نے بورڈنگ سکولز، کالجز اور اکیڈمیز کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے اکثر بورڈنگ سکولز اور اکیڈمیز میں پڑھایا بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ان بورڈنگ سکولز، کالجز اور اکیڈمیز میں جہاں پر صرف لڑکے رہائش پذیر ہوتے تھے۔ ان جگہوں پر طلباء اور طلباء کے بیچ، طلباء اور اساتذہ کے بیچ بھی، ہومو سیکشوئلیٹی یا ریپ کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔

لیکن میں یونیورسٹی میں بھی پڑھا ہوں، وہاں بھی لڑکوں کے ہاسٹلز ہوتے ہیں اور وہاں بھی تو ہاسٹلز میں سب لڑکے اکٹھے رہتے ہیں۔
مگر وہاں ایسے ہومو سیکشوئل یا ریپ کے واقعات کیوں نہیں ہوتے یا ڈھونڈے سے بھی سالوں میں اِکّا دُکّا ملتے ہیں۔ (جبکہ کچھ متعصب یا پروپیگنڈہ کا شکار لوگ یونیورسٹی جانے سے پہلے طلباء کو ڈراتے رہتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں فلاں فلاں۔۔۔۔۔)
اگرچہ یونیورسٹی میں رہتے ہوئے سب کی جنسی خواہشات بھی تو پوری نہیں ہوتیں، پھر فرق کہاں ہے؟

مجھے غور کرنے پر یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ مدارس، بورڈنگ سکولز، کالجز اور اکیڈمیز کے برعکس یونیورسٹیوں میں طلباء کو جبری طور پر نہیں پڑھایا جاتا نہ ہی ان پر کسی بھی دوسرے حوالے سے جبر کیا جاتا ہے۔ بلکہ ان کو ہر چیز کی آزادی ہوتی ہے۔
مثلا پڑھنے یا نہ پڑھنے کی آزادی، آنے جانے اور رہنے کی آزادی، گھونے پھرنے کی آزادی، کھیلنے کودنے کی آزادی، ناچنے گانے کی آزادی، کلچرل پروگرامات کرنے کی آزادی، ملنے جُلنے کی آزادی، آپس میں گفتگو اور بحث و مباحثے کی آزادی، کھانے پینے اور قہقہے لگانے کی آزادی وغیرہ۔
یہ سب آزادیاں جب ایک انسان کو میسر ہوں اور جبر کی زنجیریں ٹوٹ جائیں تو انسان کے اندر کی فرسٹریشن کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے۔ انسان گُھٹن سے آزاد ہو جاتا ہے۔ ناصرف یہ بلکہ مختلف کلچر کے لوگوں کے ساتھ ملنے جُلنے سے اس کی تہذیبی گرومنگ بھی ہوتی رہتی ہے۔
یوں وہاں ریپ وغیرہ کے واقعات کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتے ہیں۔
فطری طور پر دیکھا گیا ہے کہ انسان جبر اور گُھٹن کی وجہ سے پیدا ہونے والی اپنی فرسٹریشن کم کرنے کے لیے جنسی تسکین حاصل کرنا چاہتا ہے اور جب اسے جنسی تسکین حاصل کرنے کی آسانی نہ ہو تو پھر وہ ریپ کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یوں معاشرے میں ریپ کے کیسز بڑھنے لگتے ہیں۔
اس لیے چاہیئے یہ کہ مدارس سمیت تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی جائیں، انسان سے جبر کو ہٹایا جائے۔ اسے آزادی دی جائے۔ یا پھر اس کی فرسٹریشن کم کرنے کے لیے جنسی تسکین کے بند مواقع دوبارہ کھولے جائیں۔ ورنہ یہ ریپ ہوتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

خضر جسکانی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: