اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈھاڈھی بابا ہر سردیوں میں آتا ہے اور پورے وسیب میں پچھلی سردیوں سے اب تک جتنے لوگوں کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہو یا کسی نے بیٹے کی شادی کی ہو، سب کے پاس جاتا ہے۔

"او خدا عمر دراز کرے سخی آ۔۔۔ دے صدقے پیارے بیٹے کے سردار صاحب۔۔۔”

میں تقریباً صبح کے چار بجے پڑتی کُہر اور سخت سردی میں کمرے اندر گرم بستر میں سویا ہوا تھا کہ خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک آواز کانوں سے ٹکرائی اور ساتھ ہی دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی۔
بیگم، جو کہ نو مولود بچے کو گود میں لیے بیٹھی دودھ پلا رہی تھیں، سہم کر بولیں کہ "رات کے اس پہر یہ دروازے پر کون ہے؟” میں بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا اور سوچنے لگا کہ کون ہو سکتا ہے؟ فقیر؟ ۔۔۔۔ لیکن رات کے اس پہر کیوں آئے گا؟ اتنے میں دروازہ دوبارہ زور سے بجا۔ دوسرے کمرے سے امی باہر آئیں اور ہمارے کمرے کا دروازہ بجا کر بولیں، "بیٹا اٹھو باہر کا دروازہ کھولو، ڈھاڈھی بابا آیا ہوا ہے۔”
” ڈھاڈھی بابا آیا ہوا ہے۔۔۔” میں نے زیرِ لب دہرایا اور اپنے کمرے سے باہر نکل آگیا۔ پھر میں گھر کے بیرونی دروازے کو کھولنے چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ ڈھاڈھی بابا اپنے بید سے تیسری بار دروازہ بجاتے، میں نے دوازہ کھول دیا۔


"سردار صاحب جلدی کر، میرا سوال پورا کر۔ سورج طلوع ہوگیا تو میں بے سوال ہو جاوں گا۔” ڈھاڈھی بابے نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔ وہ اپنی چھڑی کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ہمارے برآمدے میں پڑی چارپائی پر آکر بیٹھ گیا۔ اس کی عمر تقریباً 80 سال کے لگ بھگ تھی۔ اس نے سفید شلوار قمیض کے ساتھ سفید جرسی، گرم چادر اور پگڑی پہن رکھی تھی۔
امی نے ایک ہزار روپیہ لاکر میری تلی پر رکھ دیا اور میں نے وہ ڈھاڈھی بابے کو دے دیا۔ اس نے ہزار روپے کا نوٹ دیکھا اور مجھے واپس دیتے ہوئے بلند آواز میں بولا کہ "سردار صاحب اللہ نے جوانی میں پگڑی کا وارث عطا کیا ہے، بکرا لینے آیا ہوں۔” اتنے میں گھر کے سارے بندے جمع ہوچکے تھے۔ امی نے پانچ سو کا ایک اور نوٹ لا کر دیا۔ سارے کہنے لگے کافی ہے بابا۔ اس نے سر ہلایا کہ نہیں۔ پھر اور پانچ سو کا نوٹ لا کر دیا تو بالآخر وہ راضی ہوگیا۔ چادر میں بندھا ایک چھوٹا سفید ریشمی کپڑا نکال کر مجھے دیتے ہوئے بولا، "یہ لے سردار صاحب، میری طرف سے بچے کے لیے کپڑے۔” اور پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگا اور چلا گیا۔ جاتے ہوئے بولا کہ "تیرے دادا ابو نے تیرے ابو کی پیدائش پر بیس روپے دیے تھے، تیرے ابو نے تیری پیدائش پر دو سو روپے اور اب تو نے اپنے بیٹے کی پیدائش پر دو ہزار روپے دیے”۔ پھر مسکرا کر بولا کہ "اب تیرے پوتے کی پیدائش تک تو شاید زندہ نہ رہوں، میرا بیٹا آئے۔ اسے بیس ہزار دو گے؟” گویا وقت کے ساتھ ساتھ صفر کا اضافہ ہورہا تھا۔
ڈھاڈھی بابا ہمارے وسیب میں اس فقیر کو کہا جاتا ہے جن کے لیے کئی سو سال پہلے بزرگوں نے طے کیا تھا کہ جس کے گھر بیٹا پیدا ہو یا کوئی اپنے بیٹے کی شادی کرے تو وہ صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے اس کے گھر جاکر خیرات لیتے ہیں۔ ڈھاڈھی بابا ہر سردیوں میں آتا ہے اور پورے وسیب میں پچھلی سردیوں سے اب تک جتنے لوگوں کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہو یا کسی نے بیٹے کی شادی کی ہو، سب کے پاس جاتا ہے۔ اگر کسی کے گھر جانے سے پہلے سورج طلوع ہو جائے تو رات وہیں وسیب میں کسی کا مہمان بن کر گزارتا ہے اور اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے اس گھر میں جاتا ہے۔ میں نے اس بات کی منطق پوچھی تو ڈھاڈھی بابا نے بتایا کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے بس یہی وجہ ہے اور کچھ نہیں۔

%d bloggers like this: