اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"آدمی کام کا نہیں رہا”۔۔۔ خضرجسکانی

سوشل میڈیا ایک لحاظ سے تو نیک شگون ہے کہ اس پر اظہار رائے کی آزادی مل جاتی ہے، اب کوئی خبر چھپائے نہیں چھپتی۔

ہمارے ایک برخوردار دوست اچانک دو تین دنوں بعد ماتھے پر پٹی لپٹے ہوئے نمودار ہوئے تو دیکھ کر دور سے ہی سلام سے پہلے منہ سے نکلا، بھائی کیا ہوا؟ مسکرائے اور بولے کچھ نہیں معولی سی چوٹ ہے۔ پھر بھی؟ ہم نے پوچھا۔ بولے کسی پوسٹ پر کمنٹ کرتا ہوا جا رہا تھا کہ گھر میں دیوار سے ٹکرا گیا۔

چند دن پہلے کی ہی بات ہے کہ ہمسائے میں رہنے والا لڑکا، تندور پر روٹیاں لگوانے گیا تھا، پوسٹ لکھتے لکھتے خالی ہاتھ گھر واپس آ گیا اور روٹیاں وہیں تندور پر ہی بھول آیا۔

اور اپنا ایک کزن جو وٹس اپ پر کسی کو جواب دینے کی جلدی میں تھا، اپنی بائیک کو لاک لگا کر چابی اسی میں ہی چھوڑ آیا۔

آپ نے شاید یہ بھی دیکھا ہوگا کہ اکثر دوستوں کی جب بھی کہیں کوئی محفل لگتی ہے تو بات کرنے والا شرمندگی سے خود ہی اس لیے چُپ ہو جاتا ہے کہ موبائل میں لگے باقی لوگ صرف ہاں، ہوں لگے ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ ان کے محلے دار کی والدہ کی اپنے بیٹے کو بلانے کے لیے بار بار اونچی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں اور بیٹا کہتا رہتا ہے کہ بس یہی ایک رپلائی دے کر آیا۔

اسی طرح ایک انجینئر دوست بتا رہے تھے کہ رات کے ایک بجے تک سوشل میڈیا استعمال کرتا رہا، صبح آٹھ بجے ڈیوٹی پر جانا تھا۔ فیکٹری کے دروازے پر پہنچ کر یاد آیا کہ ضروری چیزیں تو گھر بھول آیا ہوں۔ پھر واپس آنا پڑا اور گھر آ کر یہ بھول گیا کہ میں یہاں کیا کرنے آیا تھا۔

سوشل میڈیا ایک لحاظ سے تو نیک شگون ہے کہ اس پر اظہار رائے کی آزادی مل جاتی ہے، اب کوئی خبر چھپائے نہیں چھپتی۔ لیکن اس کا بہت زیادہ استعمال بالخصوص نوجوان نسل کو کاہل اور بھلکڑ بنا رہا ہے۔

بہت سے لوگ ڈپریشن کا شکار بھی ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعتدال پسندی اختیار کی جائے۔ سوشل میڈیا کو روزانہ دوگھنٹے سے زیادہ وقت دینا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

%d bloggers like this: