اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم کے بکھرنے سے خالد حقانی کے قتل تک||حیدر جاوید سید

ارے ہاں یہ تو آپ کو بتایا ہی نہیں کہ پی ڈی ایم کے گزشتہ روز والے سربراہی اجلاس میں بلاول اور اختر مینگل کی دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقات کو لے کر قبلہ فضل الرحمن بہت پریشان تھے

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجئے، سول سپر میسی کے لئے 4جولائی سے پھر انقلابی تحریک شروع ہوگی پہلے مرحلہ پر جلسے ہوں گے، استعفوں کا کوئی ذکر نہیں ہوا البتہ کامریڈ مولانا فضل الرحمن نے فرمایا ہے کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے بارے میں سوچنے کا ہمارے پاس وقت نہیں۔
سیاسی اتحادوں کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اتحاد بنانے والی پارٹی کو نکال کر اتحاد پر ایسے قبضہ کیا گیا جیسے دوسرے فرقے کی مسجد پر قبضہ کیا جاتا ہے۔
البتہ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ جو جماعتیں اپوزیشن اتحاد سے نکال دی گئیں انہیں پارلیمانی اپوزیشن اتحاد میں کیونکر رکھا جائے گا اور کس منہ سے؟ پیپلزپارٹی پر ’’باب‘‘ نامی جماعت سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے منصب کے لئے ووٹ لینے کا الزام لگانے والوں نے 2015ء میں بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہونے اور پھر باپ کے آنگن میں چھ سال قیام کرنے والے آغا جی کو براہ راست مسلم لیگ (ن) کا مرکزی نائب صدر بنادیا ہے۔
خیر یہ سیاست ہے ’’کھوتا کھرکا سب ملال جتھے ماڑا نور جمال‘‘۔ نوازشریف کی صاحبزادی کا گروپ پی ڈی ایم میں اپنی طاقت منوانے میں کامیاب رہا۔
سیاست اسی کو کہتے ہیں۔ جو اب دو طرح کی ہوگی پارلیمان میں شہباز شریف کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن اور سڑکوں پر مریم و فضل الرحمن کی قیادت میں 8جماعتیں اتحاد کی صورت میں۔
ارے ہاں یہ تو آپ کو بتایا ہی نہیں کہ پی ڈی ایم کے گزشتہ روز والے سربراہی اجلاس میں بلاول اور اختر مینگل کی دبئی میں ہونے والی حالیہ ملاقات کو لے کر قبلہ فضل الرحمن بہت پریشان تھے
انہوں نے یہ ارشاد بھی فرمایا جس نے پیپلزپارٹی سے ملاقاتیں کرنی اور رابطے رکھنے ہیں وہ خوشی سے پی ڈی ایم چھوڑدے۔
کچھ سمجھ میں آیا کہ مولانا اور مریم کے عزائم کیا ہیں۔
اچھا ویسے ادھر اے این پی اور پی پی پی کے درمیان ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کے لئے ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں نے پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی اپنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان دو جماعتوں کا پارلیمانی گروپ قومی اسمبلی میں پی ڈی ایم کے پارلیمان گروپ سے الگ تشخص کی بنیاد پر کردار ادا کرے۔
تکبر اور نفرت میں گردن تک دھنے شاہد خاقان عباسی اب بھی اپنے بیان کی تکرار میں مصروف ہیں۔ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف عدالت میں جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
حکومت گرانے نکلے تھے اور پھر آپس میں لڑپڑے اور مستقل طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی پی ڈی ایم کو (ن) لیگ کے میڈیا سیل اور قبلہ فضل الرحمن مدرسہ قاسم العلوم کی طرح چلانے کے خواہش مند تھے اور ہیں
ویسے ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی خچ کس کے کہنے پر ماری گئی تھی۔ کیا اس کا مطلب سہولت کاری تھا؟ اگر یہی مقصد تھا تو اس کھیچل کی ضرورت کیا تھا۔
چلیں ہمیں کیا یہاں کون سا انقلاب برپا ہونے جارہا تھا چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں پوری ہونے دیجئے۔ بہرطور اب اے این پی اور پی پی پی کا پی ڈی ایم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ بلاول نے عباسی کا شوکاز نوٹس پھاڑا تھا اب ایک صحافی ( فاروق اقدس ) کے بقول مریم نواز نے پی پی پی کے پی ڈی ایم سے تعلق کا ورقہ پھاڑدیا ہے۔
نئے متوقع اتحاد بارے کہا جارہا ہے کہ اس کا نام پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ یا قومی جمہوری اتحاد ہوگا۔ کیا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوپائے گا؟ یہ سوال ہے اور اگر واقعی یہ اتحاد بنتا ہے تو اس میں اے این پی اور پی پی پی کے علاوہ کون کون ہوگا؟
کہا جارہاہے کہ اگلے ایک دو ہفتوں میں اس حوالے سے صورتحال واضح ہوجائے گی۔
آجکل بہت سارے لوگ یہ سوال کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ کہ اگر پیپلزپارٹی اور اے این پی استعفے دے کر حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو باقی ماندہ پی ڈی ایم نے ٹریک تبدیل کیوں کرلیا ہے ؟
بات ویسے پوچھنے والی ہے۔ انقلاب لانے کا پروگرام ملتوی کیوں کردیا گیا۔ کڑاکے دار گرمی اس التواء کی وجہ ہے کہ اصل ہدف کا حاصل نہ ہوسکتا؟
پی ڈی ایم نے افغان صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اصولی طور پر یہ مطالبہ درست ہے کیونکہ افغان عمل میں پاکستان کے کردار، پھر امریکہ کو اڈے دینے کی خبروں اور وزارت خارجہ کی عجیب و غریب وضاحت سے پیدا شدہ صورتحال میں یہ اجلاس بہت ضروری ہے۔
مکرر ایک بات پھر عرض کرنا پڑرہی ہے وہ یہ کہ پارلیمانی اپوزیشن اگر پارلیمان کے اندر پی ڈی ایم کی بیرونی پالیسیوں پر عمل کرے گی تو کیا اتحاد سے نکالی گئی جماعتیں تعاون کریں گی؟
اب چلتے چلتے یہ خبر بھی کہ کالعدم تحریک طالبان کے شیخ الحدیث اور ناظم مالیات مفتی خالد حقانی افغانستان کے صوبہ کنٹر میں قتل کردیئے گئے۔
ملا فضل اللہ کو ٹی ٹی پی کا سربراہ بنوانے میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ بعض مسلم فرقوں اور دیگر مذاہب کی تکفیر کے ضمن میں دیئے گئے ان کے فتوئوں کی وجہ سے کچھ عرصہ حالات بہت خراب رہے۔
آپریشن ضرب عضب کے دوران موصوف دیگر کمانڈروں کے ساتھ وزیرستان سے بھاگ کر افغانستان چلے گئے تھے۔ ملا فضل اللہ کے قتل کے وقت ان کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں پھر انہوں نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنے قتل کی تردید کردی۔
مفتی خالد حقانی، کالعدم ٹی ٹی پی کے لئے بہت اہم تھے۔
ان پر یہ الزام بھی تھا کہ ٹی ٹی پی اور بھارت کے درمیان روابط ان کی نگرانی میں قائم ہوئے اسی وجہ سے یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ وہ پچھلے اڑھائی تین سالوں سے کابل میں بھارتی سفارتخانے کی ملکیت ایک عمارت میں مقیم تھے۔
گزشتہ روز وہ کنٹر صوبے میں دوران سفر قتل کردیئے گئے۔ طالبان ان کے قتل کی تو تصدیق کررہے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ قتل ٹی ٹی پی کے اندر مالیاتی امور پر پیدا ہوئے تنازع کی وجہ سے ہوا یا کوئی اور وجہ ہے
البتہ یہ حقیقت ہے کہ خالد حقانی کے قتل سے دہشت کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: