مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملالہ یوسف زئی کی وہ باتیں جو شور میں دب گئیں||محمد عامر خاکوانی

ملالہ انقلابی نہیں ، وہ نوم چومسکی، اروندھتی رائے بھی نہیں۔ جو باتیں رابرٹ فسک، ایڈورڈ سعید جیسے غیر مسلموں نے کہیں ، ملالہ وہ بھی نہیں کہے گی۔ ہمیں ملالہ سے اس حوالے سے توقعات نہیں رکھنی چاہیں، مگر اس پرنامناسب غلط الزامات بھی نہیں لگانے چاہئیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملالہ یوسف زئی کے پورے انٹرویو کا جائزہ لے کر یہ کالم لکھا ہے، یہ میری طرف سے اس موضوع پر آخری تحریر ہے، آج اخبار میں کالم شائع ہوا ہے، مگر اس تحریر میں وہ چار پانچ سو الفاظ بھی شامل ہیں جو سپیس کی کمی کی وجہ سے اخباری کالم میں نہیں دے سکا۔ کوشش کی ہے کہ ملالہ کے موضوع پر غیر جانبداری، انصاف اور توازن کے ساتھ بات کی جائے، اپنے روایتی تعصبات اور آرا سے ہٹ کر جو بات جیسی لگی، جیسی ہے، وہی بیان کرنے کی کوشش کی۔ بات تھوڑی تفصیلی ہوگئی، مگر ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے تمام سازشی نظریات پر میرا تجزیہ بھی آ گیا ہے۔
ملالہ یوسف زئی کی وہ باتیں جو شور میں دب گئیں
عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملالہ یوسف زئی کے فیش میگزین ووگ کو دئیے گئے انٹرویو کو یہ کالم لکھنے سے پہلے دوسری بارتفصیلی اور تیسری بار طائرانہ انداز میں پڑھا تو اندازہ ہوا کہ ملالہ کے ایک جملے نے اس انٹرویو کی کئی باتیں اوجھل کر دیں۔ ووگ میں چھپنے والا انٹرویودلچسپ اور خاصا طویل ہے، برطانوی صحافی نے عمدگی سے ملالہ کی زندگی کے کئی پہلو اجاگر کئے، خاص کر آکسفورڈ میں تعلیم کا تجربہ اور مستقبل میںوہ کیا کرنا چاہتی ہے؟
ملالہ نے اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی کہ اس نے سال میں چوراسی 84))کتابیں پڑھنے کا عہد کر رکھا ہے، یہ سات کتابیں ماہانہ بنتی ہیں۔(کتابیں پڑھنے کے ایک شائق کے طور پر خاکسار نے ملالہ کے اس ذوق اورکمٹمنٹ پر رشک کاجذبہ محسوس کیا۔) ملالہ نے تین ماہ پہلے مارچ (2021)میں ایپل ٹی وی پلس (Apple TV+)کے ساتھ کئی برس پر محیط معاہدہ کیا ہے۔ملالہ کی کمپنی ایکسٹرا کریکلر(Extracurricular)ایپل ٹی وی کے لئے مختلف شو، کامیڈی پروگرام ، بچوں کے پروگرام اور دستاویزی فلمیں بنائے گی۔ یاد رہے کہ ایپل ٹی وی پلس معروف ویڈیو آن ڈیمانڈ سٹریمنگ سائٹ ہے جس کے ایک کروڑ سبسکرائبر ہیں۔
ملالہ نے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ سوات کے سکول میں وہ اے پلس طالبہ تھی، مگر آکسفورڈ میں زیادہ نمایاں نہیں ہوسکی کیونکہ وہاں دنیا کے ذہین ترین طلبہ پڑھ رہے تھے۔ ملالہ کی ایک دوست نے ووگ میگزین کو بتایا کہ ملالہ ابتدا میں محتاط، سنجیدہ اور ریزرو تھی کیونکہ وہ دنیا بھر میں سفر کرنے، اہم شخصیات سے ملاقاتیں اور ایک خاص سطح کو برقرار رکھنے کی کوشاں تھی۔بتدریج وہ ایک عام طالبہ کی طرح گھل مل گئی ۔خود ملالہ کا کہنا تھا سکول میں ساتھی طلبہ پوچھتے کہ امریکی صدر اوباما، ایمی واٹسن (ہیری پوٹر فلم سیریز کی اداکارہ)اور انجلینا جولی (نامور ہالی وڈ اداکارہ)سے ملاقاتیں اسے کیسے لگیں؟ ملالہ کو یہ عجیب لگتا، اسے سمجھ نہ آتی کہ کیا جواب دے۔ وہ اس (مشہور) ملالہ کو سکول کی عمارت سے باہر چھوڑ کر عام طالب علم کے طور پر کلاس میں آنا چاہتی تھی۔آکسفورڈ میں خیر اسے پرائیویسی بھی ملی اور اس نے دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر مزے بھی کئے، رات کو دیر تک گپیں لگانا، آرڈر کر کے برگر منگوانا وغیرہ۔ ملالہ کے بقول اس کے کمرے میں ہمیشہ رش لگا رہتا کیونکہ وہ آنے والے دوستوں کے لئے کچھ نہ کچھ کھانے کی چیزیں رکھا کرتی تھی، یہ اس کی پختون مہمان نوازی کی روایات کا حصہ تھا جو اس نے اپنے والدین سے سیکھا۔ ملالہ ڈرنک نہیں کرتی ، مگر اپنے دوستوں کے ساتھ پب چلی جاتی تھی، وہاں وہ مزے سے انہیں پیتے اور پھر مست ہو کر شور مچاتے دیکھتی رہتی۔
ملالہ یوسف زئی اکثر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کی فین ہے، اسے میچ دیکھنا پسند ہے،ٹیسٹ میچ دیکھنے کو ملنا تو کمال ہی ہے۔ملالہ کے بقول برطانیہ آنے کے بعد اس کے دل میں اپنے وطن (پاکستان ) جانے کی شدید خواہش تھی۔ اسے مختلف ممالک میں جانا پڑتا اور ایسی ہر فلائیٹ میں وہ سوچتی کہ ایسے کسی جہاز میں بیٹھ کر وہ پاکستان کب جائے گی؟ ملالہ نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی طالبان نے اسے قتل کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی ، اس لئے پاکستانی حکام سکیورٹی کے پیش نظر انہیں بلانے سے گریزاں تھے۔ حتیٰ کہ تین سال پہلے ملالہ نے اپنے والد سے کہا کہ پاکستانی سیاست میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا رہے گا، اس لئے کسی چیز کی پروا کئے بغیرہمیں ہر حال میں پاکستان جانا چاہیے۔ ملالہ نے برطانوی صحافی کو بتایا کہ جب ہمارا جہاز اسلام آباد ائیرپورٹ لینڈ کر گیا اور میں پاکستان کی فضا میں سانس لے رہی تھی تو یہ سب سپنے جیسا لگ رہا تھا۔
ووگ کی صحافی نے محسوس کیا کہ ملالہ سیاست کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کرتی ہے۔شائد اس لئے کہ اس کی تنظیم” ملالہ فنڈز “آٹھ ملکوں میں کام کر رہی ہے اور متنازع ہونے سے کام میں حرج ہوسکتا ہے۔ ملالہ کا سیاست کے حوالے سے سوالات پر کہنا تھا، ” سیاست میں داخل ہونے سے پہلے بندے کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کرنے آیا ہے اور کس کے ساتھ مل کر کام کرے گا؟آپ جانتی ہیں کہ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کا ماضی بے داغ اور شفاف نہیں، کیا ان کا دفاع کیا جائے؟ دفاع نہ کیا جائے؟اپنی نئی سیاسی جماعت بنائی جائے؟ عمران خان نے نئی جماعت بنائی مگر انہیں کامیاب ہونے میں تیس سال لگ گئے۔“
ملالہ نے محبت، رومان وغیرہ پر سوالات کاابتدا میں کھل کر جواب نہ دیا۔ حتیٰ کہ رپورٹرنے لکھا کہ مجھے لگا کہ مزید سوالات پوچھنا کسی بلی کے ننھے بچے کو تشدد کانشانہ بنانے جیسا ہوگا، اس نے موضوع بدل دیا۔بعد میں ایک بار بریڈ پٹ سے ملاقات کا ذکر آیا تو صحافی نے پوچھا کیامشہور ہالی وڈ اداکار واقعی ہینڈسم ہے ؟ ملالہ شرمیلے انداز میں مسکرائی اور بولی ہاں، یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا۔ بعد میں البتہ جب یہ دونوں پارک میں چہل قدمی کرنے لگے تو ملالہ نے بتایا کہ اس کے دوست سوشل میڈیا پر جب اپنے پارٹنرز ، ریلیشن شپ وغیرہ کا بتاتے ہیں تو وہ بھی اس بارے میں سوچتی ہے ، کسی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟یہاں پر ملالہ یوسف زئی نے وہ متنازع بات کہی جس نے پچھلے دودنوں سے پاکستان میں خاص کر سوشل میڈیا پر تہلکہ مچایا ہوا ہے۔
ملالہ نے اپنے والدین کی ارینج لو میرج کا ذکر کیا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو پسند کیااور پھر ان کے بڑوں کی مرضی سے شادی ہو گئی ۔ ملالہ نے یہاں دو فقرے کہے، ”میں ابھی تک نہیں سمجھ سکی کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟اگر آپ کسی کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے میرج پیپرز پر دستخط کیوں کرتے ہیں؟یہ صرف پارٹنر شپ کیوں نہیں ہوسکتی؟why can’t it just be a partnership?۔برطانوی صحافی نے ملالہ کے جملے کے بعد فقرہ لکھا کہ اکثر ماﺅں کی طرح ملالہ کی والدہ اس سے اتفاق نہیں کرتی۔اس کے بعد وہ ملالہ کی زبانی بتاتی ہے، ملالہ نے ہنس کر کہا،میری ماں کہتی ہے کہ تمہیں ایسی بات کہنے کی ضرورت نہیں،تمہیں شادی کرنی چاہیے، شادی خوبصورت (رشتہ)ہے۔“
ملالہ کے ان جملوں نے طوفان اٹھا دیا۔ اس کا دفاع کرنے والے عجیب وغریب تاویلات اور دلائل دے رہے ہیں۔ ملالہ کے والد نے ٹوئٹ کیا کہ ملالہ کا جملہ سیاق وسباق کے بغیر میگزین کی اپنی تاویلات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ملالہ نے ابھی تک وضاحت کی زحمت نہیں کی، حالانکہ ایک منٹ میں دو سطری وضاحتی ٹویٹ جاری کیا جا سکتا تھا۔یاد رہے کہ ملالہ کے آفیشل ٹوئٹر اکاﺅنٹ پر اٹھارہ لاکھ فالورز ہیں۔اس کے بعض حامیوں نے دلیل دی ہے کہ وہ نکاح کی مخالفت نہیں کر رہی، صرف نکاح کے کنٹریکٹ پر تنقید کی ہے اور صرف سو سال پہلے کون سا تحریری نکاح نامہ ہوتا تھا وغیرہ وغیرہ۔
سچ تو یہ ہے کہ ان وضاحتوں میں دم نہیں۔ ملالہ کی بات بڑی واضح اور غیر مبہم ہے۔ اس نے شادی کے بغیر پارٹنر شپ یعنی ساتھ رہنے کی بات کی ہے۔ورنہ ملالہ کی ماں کیوں کہتی، تم ایسی بات نہ کہو اور تمہیں ضرور شادی کرنی چاہیے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ ملالہ نے جس آپشن کا ذکر کیا وہ شادی نہیں اور اس کے بغیر والا تعلق ہے۔ مغرب میں اور اب تو انڈیا میں بھی شادی کے بغیر رہنا (Live In relationship)عام ہوچکا ہے۔ مسلم سماج میں یہ صریحا ً غلط اور گناہ ہے۔ پاکستانی سماج میں تو خیر کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ملالہ کی یہ بات واضح طور پر مسلمہ اسلامی، مشرقی، پاکستانی اخلاقی قدروں (Values)کے خلاف ہے ۔ اس پر تنقید ہونا ، اعتراض کرنا فطری اور منطقی ہے۔ ملالہ کی اس کمزور، مجہول، بچکانہ بات کا دفاع کرنا البتہ حیران کن ہے۔ اس کے حامیوں کو صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ اس نے غلط بات کی اور اپنی کم فہمی،کم علمی اور نوجوانی والی شوخی کا مظاہرہ کیا ہے، اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔
میرے جیسے لوگ ملالہ کے مداح نہیں اور اس کے نوبیل انعام کے حوالے سے بھی تحفظات رکھتے ہیں، تاہم میرے خیال میں ملالہ کو مغرب کا ایجنٹ قرار دیناغلط، اس کے بارے میں سازشی نظریات پھیلانا بھی نامناسب ہے۔ ملالہ کو ٹی ٹی پی نے گولی ماری ، یہ دہشت گرد تنظیم اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، وہ لوگ ناخوش تھے کہ ان کا حملہ ناکام کیوں ہوا؟
نو سال پہلے جب 2012 میں حملہ ہوا تب یہ شکوک پھیلائے گئے۔ دینی حلقہ سمجھتا تھا کہ اس بہانے فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے گی۔ آج ہم سب جانتے ہیں کہ تب ایسا نہیں ہوا اور وہ شبہ بے بنیاد تھا۔حملہ کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ ملالہ کی ہیڈ انجری ہوئی، جس کی سرجری پاکستانی فوج کے سینئر ڈاکٹروں نے کی، پھر لندن میں اس کا آپریشن ہوا ، جس کے نتیجے میں اس کا منہ ہمیشہ کے لئے ذرا سا ٹیڑھا ہوگیا ۔ فوٹو شاپڈ تصویروں کے ذریعے اس زمانے میں شکوک پیدا کئے گئے کہ اسے گولی نہیں لگی اور فرضی پٹی باندھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لندن کے ہسپتال میں پاکستانی ڈاکٹر بھی کام کرتے تھے، ان میں سے بعض ملالہ کے علاج میں شریک ہوئے، نام نہاد سازشی تھیوریز میں غرق رہنے والے سمجھتے ہیں شائد دنیا سٹار پلس کے ڈراموں جیسی ہے یا ہالی وڈ کی سائنس فکشن فلمیں حقیقت ہیں۔ عملی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا، دنیا بھر کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا، سرجری کا ریکارڈ ہوتا ہے، مریض کی ٹریٹمنٹ کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب ہوتا ہے جو برسوں محفوظ رہتا ہے۔ یہ کیسی سازش تھی جس میں پاکستانی ملٹری ہسپتال اور اعلیٰ ترین ڈاکٹر بھی شامل تھے، انگلینڈ کے معروف ترین ہسپتال کے جانے مانے سپیشلسٹ بھی، وہاں کام کرنے والا بے شمار عملہ، وہاں کے پاکستانی ڈاکٹر، سب اندھے ہوچکے تھے، سب کے دماغ مائوف کر دئیے تھے خفیہ ایجنسیوں نے ؟ پھر اس سازش کا کیا فائدہ ہوا ؟ کیا حاصل کیا گیا؟ ملالہ کو نوبیل انعام ملے بھی کئی برس ہوگئے ، اس نے مسلم امہ کو کیا ڈینٹ ڈال دیا؟ کیا بیشتر مسلمان حکمرانوں سے زیادہ تباہ کن اور کوئی ہوسکتا ہے؟شیعہ سنی بنیاد پر مسلم دنیا کو تقسیم کرنے والے شہزادوں اور مذہبی لیڈروں سے زیادہ نقصان اور کون پہنچائے گا؟ ملالہ کی انجری پراب بھی کوئی شک کرتا ہے تو اسے اپنا نفسیاتی علاج کرانا چاہیے ۔
ملالہ نے اپنے انٹرویو جو بات کہی ، وہ غلط ہے، اسے نہیں کہنی چاہیے، تاہم میں نہیں سمجھتا کہ ملالہ کا یہ کمزور اور غلط جملہ کسی بڑی سازش کا پیش خیمہ ہے اور اس سے وہ ہماری نئی نسل کو گمراہ کرنا چاہتی ہے ۔یہ سب بعید از قیاس مفروضے ہیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ملالہ کو مغرب پاکستان میں کسی بڑے ایجنڈے کے لئے لانچ کرنا چاہتا ہے۔اگر ایسا ہوتا تو وہ متنازع بات کرتی ہی کیوں؟
پاکستان میں اگر عوام کو بے وقوف بنانا ہو تو سب سے آسان حربہ مذہب کو استعمال کرنا ہے۔ ہم نے مذہب اور مذہبی تحریکوں کے نام پر کتنے دھوکے کھائے ہیں؟ملالہ نے اگر پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانا ہوتا تو وہ اپنا تاثر مذہبی بناتی ، ہاتھ میں تسبیح رکھتی، مذہبی علامات کونمایاں کرتی۔ اس کے برعکس ملالہ کا پورا امیج ایک ماڈرن، سیکولر ،پختون لڑکی کا ہے۔ وہ دوپٹہ لیتی ہے، مگر اسے مسلم سے زیادہ پختون کلچر کا حصہ بتاتی ہے۔ ملالہ کی فکر پر اس کے والد کا اثر ہے جو ایک سیکولر، غیر مذہبی پختون قوم پرست سوچ رکھتے ہیں۔ مجھے یا کسی اورکو اس فکر سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر یہ پاکستان میں ایک پورا سکول آف تھاٹ ہے اور انہیں ایسا سوچنے کا حق حاصل ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو مغرب نے گلوریفائی کیا، دولت، شہرت، عزت دی۔ نوبیل انعام دیا، اس کے امدادی فنڈ کے لئے عطیات بھی مغرب سے ملتے ہیں، اس لئے وہ مغربی آڈینس اور وہاں کے سیکولر ، فیمنسٹ پیمانوں کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔ وہ کشمیر پر کھل کر بات نہیں کرتی، اسرائیل کے خلاف کبھی نہیں بولتی،اگرچہ حال ہی میں غزہ بحران کے بعد اس نے فلسطینی بچوں کے لئے ڈیڑھ لاکھ ڈالر عطیہ دیا۔ملالہ مسلم دنیا میں انسانی حقوق کے ایشوز پر بھی ڈپلومیٹک رویہ رکھے گی ۔ یہ سب سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔ ملالہ انقلابی نہیں ، وہ نوم چومسکی، اروندھتی رائے بھی نہیں۔ جو باتیں رابرٹ فسک، ایڈورڈ سعید جیسے غیر مسلم لکھاریوں نے کہیں ، ملالہ وہ بھی نہیں کہے گی۔
ہمیں ملالہ سے اس حوالے سے توقعات نہیں رکھنی چاہیں، مگر اس پرنامناسب ، غلط الزامات بھی نہیں لگانے چاہئیں۔دیانت داری کا تقاضا ہے کہ جو بات جتنی ہے، اتنی ہی کہی جائے۔ ملالہ نے اپنے انٹرویو میں میرج کے بغیر پارٹنرشپ کی جو بات کہی، وہ بوگس ، غلط اور غیر اخلاقی ہے۔ اسے اس پر معذرت یا وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر اسے لگتا ہے کہ سیاق وسباق کے بغیر بات کہی گئی تو اب سیاق وسباق واضح کر دے ۔ ملالہ کے حامیوں کو دفاع اور تاویل کرنے کے بجائے اپنی ممدوحہ سے غلط کو درست کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: