نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروری 2024 ءکی 8تاریخ کو متوقع عا م انتخاب کی تیاری کے لئے امیدواروں کے پاس محض تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔گلیوں ،بازاروں اور محلوں میں لیکن انتخابی ماحول سرد ہی نہیں بلکہ عمومی اعتبار سے مفقود نظر آرہا ہے۔ اپنے طویل صحافتی کیرئیر میں ایسی فضا میں نے فقط 1985ءکے برس دیکھی تھی۔ جو سرد مہری اس برس دیکھنے کو ملی اس کے اسباب مگر واضح تھے۔
مذکورہ انتخابات سے قبل جنرل ضیا نے آٹھ برسوں تک ملک میں مارشل لاءنافذ کررکھا تھا۔ اپریل 1979ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد اسی برس کے اکتوبر میں انتخابات بھی بغیر کوئی تاریخ دئے موخر کردئے گئے۔ اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں بھی ”کالعدم“ ٹھہرادی گئی تھیں۔
سیاستدانوں کے بیانات سننے کے لئے ہم بی بی سی جیسے غیر ملکی نشریاتی اداروں کی اردو سروس سے رجوع کر نے کو مجبور تھے۔مقامی اخبارات میں ان سیاستدانوں کو محض ایسی تصاویر کے ساتھ ”زندہ” رکھا گیا جن میں وہ شہر کی کسی معروف ومتمول شخصیت کی بیٹی یا بیٹے کی شادی میں شریک ہوئے نظر آتے۔ ایسی شادیوں میں شریک مہمانوں کی تصاویر”پٹی“ کی صورت چھاپی جاتی تھیں۔سیاستدانوں کو الگ سے نمایاں طورپر دکھایا نہیں جاتا تھا۔
سیاسی جماعتوں کو کالعدم ٹھہرانے کے بعد جنرل ضیاءنے امریکہ اور یورپ کی جمہوریت سے منافقانہ محبت کی تسکین کے لئے 1981ءمیں نام نہاد ”مشاورتی نظام“ کا سلسلہ شروع کیا۔ مرکز میں ”نیک لوگوں“ کے شجروں کی چھان پھٹک کے بعد ملک بھر سے ”پڑھے لکھے اور خاندانی“ افراد کو مجلس شوریٰ کی رکنیت کے لئے نامزد کیا گیا۔اس نامزد ادارے نے خود کو منتخب اسمبلی جیسا ”خودمختار“ دکھانا چاہا تو جنرل ضیاءنے مہارت سے اسے سراہا۔وہاں مختلف وزارتوں کی کارکردگی کی بابت اٹھائے سوالات کے جوابات تفصیل سے پیش ہوتے۔ سوال اٹھانے والے اس کے باوجود عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ وزارت کی کارکردگی کو کڑی تنقید کی زد میں لاتے۔مجلس شوریٰ ہی میں ”قانون شہادت“ کو ”اسلامی“ بنانے کے حوالے سے جو اقدامات لئے گئے انہوں نے عورت کی شہادت کو ”آدھی“ بنانے کی کوشش کی۔اس کی وجہ سے جو قضیہ اٹھا اس نے ویمن ایکشن فورم جیسی تحاریک کے آغاز کا جواز فراہم کیا۔جنرل ضیاءنے گھبرا کر ”مجلس شوریٰ“ کو بھی اس کی ”اوقات“ میں لوٹاناشروع کردیا۔
مجلس شوریٰ کے تین برس گزرجانے کے بعد جنرل ضیا نے ”ریفرنڈم“ کے ذریعے خود کو منتخب صدر بنانے کے عمل کا آغاز کیا۔1984ءمیں لوگوں سے سوال ہوا کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کا ”مکمل“ نفاذ چاہتے ہیں یا نہیں۔اس سوال کا ”ناں“ میں جواب تقریباََ ناممکن تھا۔ ”ہاں“ مگر اس امر کا اظہا ر بھی تصور ہوا کہ اسلام کے ”مکمل“ نفاذ کے لئے جنرل ضیاءکو پانچ برس تک بادشاہی اختیارات کے ساتھ صدرِ پاکستان کے عہدے پر براجمان رہنا ہوگا۔خود کو ”منتخب صدر“ ثابت کردینے کے بعد جنرل ضیاءنے ”غیر سیاسی بنیادوں“ پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ارا کین کی تلاش میں عام ا نتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ مارشل لاءکی مخالف جماعتوں پر مشتمل ”تحریک بحالی جمہوریت(ایم آر ڈی)“ نے مجوزہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔بطور رپورٹر میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے محلوں میں کئی گھنٹے گزارنے کے باوجود انتخابی ماحول کی گہماگہمی کا شائبہ بھی محسوس نہیں کرپاتا تھا۔جواں سالی کی سادہ لوحی نے طے کرلیا کہ عوام کی اکثریت ”غیر سیاسی“ انتخاب کو ڈھونگ تصور کرتے ہوئے اس میں حصہ لینے کو تیار نہیں ہورہی۔
صحافیانہ تجسس نے مگر اس امر کو اکسایا کہ اسلام آباد سے باہر نکلا جائے۔ایک تھیلے میں چند کپڑے ڈال کر عام بسوں کے ذریعے کوہاٹ پہنچ گیا۔ وہاں سے میانوالی اور تلہ گنگ سے گزرتے ہوئے فیصل آباد اور جھنگ کے دیہات کی خاک چھانی۔ شہروں کے برعکس چھوٹے قصبات میں دھڑوں میں تقسیم ہوئے لوگ انتخابی عمل کی بابت بہت گرم جوش تھے۔میں نے ان کی گرم جوشی کو بھانپتے ہوئے 1985ء کے انتخاب میں قصباتی حلقوں میں بھاری بھر کم ٹرن آﺅٹ کے امکانات کا ذکر کیا تو میرے سینئرز کی اکثریت نے میرا مذاق اڑایا۔ پولنگ کے ر وز لیکن میں درست ثابت ہوا۔ہمارے بڑے شہروں میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد چند ہی حلقوں میں 30فی صد سے آگے بڑھ پائی۔ قصبوں میں لیکن کئی مقامات پر ٹرن آﺅٹ 60فی صد تک پہنچ گیا۔
اپنے مشاہدے کے درست ثابت ہوجانے کی بدولت میں ”عقل کل“ کے گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوا۔ صحافیانہ جستجو نے بالآخر یہ سمجھادیا کہ اسلام آباد اور لاہور جیسے شہروں سے دور افتادہ قصبات کے باسی روزمرہ زندگی میں فقط تھانہ کچہری ہی نہیں بلکہ کئی دیگر معاملات کے حوالے سے سرکاری افسروں سے رجوع کرنے کے لئے ”سہارے“ڈھونڈتے ہیں۔اس تناظر میں ان کی برادری یا دھڑے سے منتخب ہوئے شخص کی ”ایک فون وغیرہ“ کے ذریعے سفارش درکار ہوتی ہے۔ اسی باعث ”غیر سیاسی“ انتخابی عمل بھی کئی مقامات پر بہت متحرک نظر آیا۔
2024ءمیں لیکن دیہی اور شہری کا فرق تقریباََ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔24/7ٹی وی چینلوں کے بعد اب موبائل فون پر سوشل میڈیا ایپس عوام کو ہمیشہ باخبر ر کھتے ہیں۔ایسے ماحول میں 1985ء جیسی سرد مہری ممکن نہیں۔ اس کے باوجود محلوں،گلیوں اور بازاروں میں انتخابی گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔ عام انتخابات کے قریب اہم ترین سیاسی جما عتوں کے رہ نما پاکستان کے مختلف شہروں میں ”عظیم الشان جلسوں“ کے انعقاد سے انتخابی ماحول گرماتے ہیں۔2013ءاور 2018ءکے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے بانی اس تناظر میں ”جشن“ کاماحول بناتے رہے۔ ان دنوں وہ جیل میں ہیں۔ان کی عدم موجودگی میں تحریک انصاف کو ایسا کوئی رہ نما میسر نہیں ہوا جو عوامی اجتماعات کو پراثر بنائے۔مروت صاحب البتہ مختلف شہروں میں ”اچانک“پہنچ کر کچھ رونق لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو سیاسی جماعت تسلیم نہیں کیا۔ اس کے کئی سرکردہ رہ نما اور کارکن پولیس کو مختلف مقدمات میں مطلوب بھی ہیں۔اسی باعث اس جماعت کے نامزد امیدوار اپنے حلقوں تک محدود ہوئے ”آزاد“ حیثیت میں رائے دہندگان سے رجوع کررہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری ابھی تک واحد سیاسی رہ نما نظر آرہے ہیں جو روزانہ کی بنیاد پرملک بھر میں تقریباََ ہر بڑے شہر اور قصبے میں پہنچ کر انتخابی اجتماعات سے خطاب کرنے کی کوشش میں کافی لگن سے مصروف ہیں۔حیران کن رویہ مسلم لیگ (نون) نے اپنارکھا ہے جو ”عظیم الشان جلسوں“ کا بلاتوقف سلسلہ شروع نہیں کرپائی ہے۔ایسے ماحول میں میرے لئے ناممکن ہورہا ہے کہ انتخاب کے روز ووٹروں کے ممکنہ ٹرن آﺅٹ کا اعتماد سے اندازہ لگاسکوں۔تحریک انصاف کے متعدد پرجوش حامی اگرچہ مجھے خبردار کئے چلے جارہے ہیں کہ موبائل فون کے ذریعے انہوں نے اس امر کو یقینی بنادیا ہے کہ آٹھ فروری کے دن لوگوں کی بہت بڑی تعداد ”ازخود“ گھروں سے نکل کر پولنگ بوتھ پہنچ جائے اور تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت میں بیلٹ پر مہر لگاکر ہمیں حیران کردے۔ وہ اگر درست ثابت ہوئے تو اب تک پھسپھسا نظر آتا ماحول 8 فروری کے دن ہمارے لئے ”تاریخی“ حیرتوں کو یقینی بناسکتا ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر