نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد فیض احمد فیض کے ہاں ”دبے پاﺅں“ آیا کرتا تھا مگر اس کے ہاتھ میں موجود چراغ روشنی کی لو سے ”سرخ“ ہوتا۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کی بدقسمتی مگر یہ ہے کہ جو مصیبت ہمارا نصیب بن جاتی ہے وہ چوروں کی طرح کامل اندھیرے میں نازل ہوتی ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے سے ہمیں پٹرول کی قیمت میں 40روپے کی کمی کا اعلان کرنے کے بعد نوید سنائی گئی کہ ”اچھے دن“ آنے کو ہیں۔پاکستانی روپے کی قدر بھی امریکی ڈالر کے مقابلے میں چند انتظامی پیش قدمیوں کی بدولت قدرے مستحکم کرلی گئی ہے۔ان دونوں حقائق کو دو جمع دو کی منطق سے جانچتے ہوئے ہم خوش گماں افراد نے فرض کرلیا کہ ہماری زندگیاں آسان ہونے والی ہیں۔اپریل 2022ءسے مسلسل بڑھتی مہنگائی اب قابو میں آنا شروع ہوجائے گی۔
سادہ لوحی کی بنیاد پر اٹھائی امید کے اس ماحول میں پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کے وطن لوٹنے کا چرچا بھی شروع ہوگیا۔ بالآخر وہ لاہورایئرپورٹ ا±ترے تو ان کی تقریر کے بعد پیر کے روز کھلے اسٹاک ایکس چینج میں 2017ءکے بعد ریکارڈ تیزی دیکھنے کو ملی۔نواز شریف کی آمد کے بعد گیلپ نے ایک سنیپ(Snap)یعنی فوری سروے بھی کیا۔پاکستان کے 30 فی صد افراد اس کے ذریعے یہ طے کرتے سنائی دئے کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا حل فقط نوازشریف ہی فراہم کرسکتے ہیں۔عمران خان کو ان کے مقابلے میں 22فی صد افراد نے معاشی مسائل کا شفا بخش حکیم تصور کیا۔
مذکورہ سروے میں تاہم میرے لئے حیران کن 30فی صد عوام کی وہ تعداد تھی جنہوں نے لگی لپٹی کے بغیر اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کا حل کسی بھی سیاست دان کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہ سوچ مگر یہ عندیہ بھی نہیں دیتی کہ وہ ریاست کے ”دیگر“ ستونوں اور اداروں سے بھی”مسیحائی“ کے منتظر نہیں ہیں۔عوامی رائے کو جانچنے کے جو سروے ہوتے ہیں ان میں سوال کی ساخت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ہم جس سروے کی بات کررہے ہیں اس میں فقط مختلف سیاست دانوں کے نام لے کر عوام سے پوچھا گیا تھا کہ وہ ان میں سے کس کو معاشی مشکلات سے نبردآزما ہونے کے قابل تصور کرتے ہیں۔ 30فی صد نے لہٰذا نواز شریف کو اس ضمن میں حاذق طبیب گردانا۔
مذکورہ سروے کی ایک اور دریافت نے البتہ ذاتی طورپر مجھے کسی دوسرے کی پنجابی والی ہوئی ”بزتی“ پر مریضانہ کہلاتی خوشی فراہم کی۔ ہمارے ہاں کئی برسوں تک گرین بس اور اورنج ٹرین جیسے منصوبوں کی وجہ سے ملک کو ”شہباز سپیڈ“ کے ساتھ شاہراہ ترقی پر گامزن رکھنے کی شہرت رکھنے والے مسلم لیگ (نون) کے صدر کو فقط ایک فی صد جی ہاں صرف ایک فی صد افراد نے اپنی اقتصادی مشکلات کا حل فراہم کرنے کے قابل ٹھہرایا ہے۔بطور وزیر اعظم شہباز صاحب نے اپریل 2022ءسے رواں برس کے اگست تک جو 16ماہ کی حکومت چلائی ہے اس کے دوران نازل ہوئے مہنگائی کے عذاب نے ”شہباز سپیڈ“ کی حقیقت بالآخر عیاں کردی۔2008ءسے 2018ءتک وہ آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے بااختیار وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اپنے دس سالہ اقتدار کے دورن انہوں نے ”خدمت اور ترقی“ کی بنیاد پر چلائی ”گڈگورننس‘ ‘ کا واہمہ برقرار رکھا۔ میں بدنصیب ان دنوں بھی دہائی مچاتا رہا کہ کوموصوف جس ”گورننس“ کے دیوانے ہیں اسے معاشی ماہرین ترقی کا ”ٹاپ ڈاﺅن“ ماڈل کہتے ہیں۔اس نوع کے ماڈل میں ایک بااختیار سیاست دان”عوام دوست آمر“ کی طرح چند ”ذہین“ سرکاری افسروں کی مدد سے انڈرپاس اور اوورہیڈ پل بناکر ترقی دکھتی رونق لگاتا ہے۔ گرین بسیں اور اورنج ٹرین بھی ایسے ہی منصوبے ہیں۔یہ پائیدار ترقی کی علامت نہیں جو گہرائی اور گیرائی کی بنیاد پر دیرپاثابت ہوتی ہیں۔
شہباز صاحب نے اگر عوام کی بھرپور شمولیت سے پائیدار ترقی کے نسخے دریافت کرلینے کے بعد ان کے چند عملی نمونے لوگوں کے روبرو رکھ دئے ہوتے تو عمران خان کے لگائے ”وسیم اکرم پلس“ چھ مہینے بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پربرقرار نہ رہ پاتے۔میں آج بھی مصر ہوں کہ اگر بزدار کی فراغت کے بعد چودھری پرویز الٰہی عمران کے دباﺅ میں آکر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا اعلان نہ کرتے تو مسلم لیگ (نون) کے لئے اپنے گڑھ تصور ہوتے پنجاب میں انتخاب جیتنا بہت دشوار ہوجاتا۔پنجاب اسمبلی کی وقت سے پہلے تحلیل والی حماقت نے بلکہ مسلم لیگ (نون) ہی کے لئے آسانیاں فراہم کی ہیں۔
بہرحال انتخاب اور اس کے نتائج فی الوقت میرے کالم کا موضوع نہیں۔آپ کو فقط یاددلانا مقصود ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہونے کے باوجود مہنگائی کے عذاب میں کمی نہیں آئی ہے۔ پٹرول کی قیمت میں 40روپے کی کمی بھی اس تناظر میں کام نہیں آئی ہے۔پیر کے دن مگر کابینہ کی اقتصادی کمیٹی نے میرے اور آپ کے گھر آنے والی گیس کی قیمت میں 193فی صد اضافہ کردیا ہے۔سادہ زبان میں بات کریں تو سردی کا آغاز ہوتے ہی اپنے گھروں میں چولہے اور چند گھنٹوں کے لئے ہیٹر جلانے کی وجہ سے ہمیں اب گزرے مہینوں کے مقابلے میں تقریباََ تین گنا بل ادا کرنا ہوگا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ماہوار خرچے میں کمی کی جو امید پیدا ہوتی تھی اب گیس کی قیمت میں اضافے کے ذریعے ختم کردی جائے گی۔ انگریزی میں سرماکے کسی خاص موسم کواس کی شدت کی وجہ سےof Discontent Winter یعنی عدم اطمینان کا موسم سرما کہا جاتا ہے۔ہمارے لئے تو مگر ہر نوع کا موسم اب ”عدم اطمینان کا موسم“ ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر