اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

کچھ عرصے بعد سوشیالوجی کی کلاس سکڑتے ہوئے پانچ لڑکیوں اور اتنے ہی لڑکوں پر مشتمل رہ گئی۔ سیمی اور آفتاب کی قربت زوروں پر تھی لیکن قیوم کا دل دستبردار ہونے پہ تیار نہیں تھا۔ سیمی قیوم کو محض قریبی دوست سمجھتی تھی اور اپنی ذاتی باتیں اس سے شیئر کر لیا کرتی تھی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راجہ گدھ انیس سو اکیاسی میں چھپا اور چھپتے ہی مقبولیت کی سب سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر والی منزل پر جا پہنچا۔ ان دنوں ہم فرسٹ ائر پری میڈیکل سے دو دو ہاتھ کرنے میں اس طور مشغول تھے کہ راجہ گدھ کی ان بے شمار سیڑھیوں پر چڑھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

 

میڈیکل کالج کی تنگنائیوں سے مانوس ہونے تک ناول کا تیسرا ایڈیشن آ چکا تھا لیکن تب تک ہمیں بھی گہرے پانیوں میں مشاقی سے تیرنے کی خوش گمانی ہونے لگی تھی اور منصوبے بنانے لگے تھے کہ میڈیکل کی کتابوں کے شانہ بہ شانہ اردو ادب کیسے دوڑے گا؟

راجہ گدھ خریدی، پڑھی اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گئے۔ یہ اسیری اس حد تک بڑھی کہ دوسروں کو بھی یہی ناول پڑھنے کی صلاح دینے لگے۔ لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ آگ کا دریا، دستک نہ دو اور اداس نسلیں کئی برس پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔

 

لیکن راجہ گدھ میں کیا تھا جو فوراً ہی ہمارے پسندیدہ ناولوں کی صف میں پہلے نمبر پر جا کھڑا ہوا، شاید:

گورنمنٹ کالج کی رومانوی فضا؟ لارنس گارڈن میں بکھری جنسیت؟ اپر، اپر مڈل اور لوئر مڈل کلاس؟ حرام و حلال کا فلسفہ؟ (مذہب تو ہماری گھٹی کو بھی وراثت ہوا تھا) ، جذبات میں ملی دیوانگی کے اسباب تک پہنچنے کی کوشش؟ رگ و ریشے میں اترتا روحانیت کا تڑکا؟ بیوروکریسی کے خلاف اکساتی گندگی؟ محبت کرتی مجبور عورتیں؟

قیوم کی سرنگوں جنسیت کا بالا دست رویہ؟
کنفیوژن کی پراسراریت؟
گناہ و ثواب کے چکرا دینے اور الجھا لینے والے مباحث؟
ہیرا منڈی کی راتیں؟
ریڈیو سٹیشن کی شامیں؟
خودکشی کا حسن؟
کہیں دکھائی نہ دینے والی پراسرار مائیاں اور بابے؟
فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے تعلق؟ خاتون مصنفہ؟
اور پھر سب سے بڑھ کر لاہور؟
جو اس وقت ہمارا پیرس، لندن اور نیویارک سب کچھ تھا۔

یہ ناول محض ناول نہیں تھا۔ یہ تو ایک طلسم تھا، ہمارے اپنے زمانے کی بھول بھلیوں کا ایسا پھیر کہ جو ایک بار داخل ہو جائے وہ سمجھ ہی نہ پائے کہ اصل ماجرا کیا ہے؟ ہر طرف آئینے ہی آئینے، اور ہر آئینے میں مصنفہ کے منقش منی ایچر، جو قاری کو وہ دکھائیں جو مصنفہ نے چاہا۔

کہانی شروع ہوتی ہے!
کہانی کے چار حصے ہیں اور ہر حصے کے دو نام ہیں جو اس حصے کے تھیم کی نشان دہی کرتے ہیں۔
شام سمے، عشق لاحاصل
دن ڈھلے، لامتناہی تجسس
دن چڑھے، رزق حرام
رات کے پچھلے پہر۔ موت کی آگاہی

پہلے حصے کا سیٹ گورنمنٹ کالج، لارنس گارڈن اور کوئینز روڈ کے گرد لگایا گیا ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے سوشیالوجی کی کلاس کا پہلا دن راوی کی زبانی:

 

دیہی علاقے سے لاہور آنے والے قیوم کو کوایجوکیشن میں پڑھنے کا پہلا تجربہ ہو رہا ہے۔ کلاس میں سب طلبا و طالبات کا تعارف ان کی کلاس کے حوالے سے کروایا گیا ہے۔

عام پروفیسرز سے بہت مختلف، پروفیسر سہیل سٹوڈنٹس کے درمیان علمی اور معاشرتی امور پر اختلافی مباحث کو چھیڑنے، ہوا دینے اور اکسانے میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔

طالبات میں سر فہرست اپر کلاس سے تعلق رکھنے والی سیمی وفاقی بیوروکریٹ کی انگلش میڈیم خود سر بیٹی، انتہائی با اعتماد، شوخ، باتونی، لا پرواہ اور من موجی۔

 

طلبا میں سب سے اہم نظر آنے والا آفتاب، وجیہہ و شکیل، ذہین و فطین، حاضر جواب، کامیاب کاروباری کا بیٹا اور اندرون شہر (لاہور) کا رہائشی۔

راوی قیوم پہلی نظر میں ہی تینوں سے متاثر اور محبت کا شکار۔

تعارف کے بعد پہلے دن ہی پروفیسر سہیل پاگل پن اور خود کشی کی وجوہات پر بحث چھیڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ اور درخائم کے حوالوں کے بعد پہلی اسائنمنٹ کا موضوع بھی یہی طے پاتا ہے۔

 

قیوم نے محسوس کیا کہ کلاس ختم ہونے سے پہلے ہی سیمی اور آفتاب ایک دوسرے کے ہو چکے تھے۔ قیوم کو شدید حسد محسوس ہوتا ہے۔ اس کے خیال میں آفتاب کے بعد وہ کلاس کا لائق ترین طالب علم تھا لیکن آفتاب کے سامنے اس کا چراغ جلتا دکھائی نہیں دیتا۔

کہانی میں دوسری سمت پرندوں کی کانفرنس میں بحث چل رہی ہے کہ انسان میں بڑھتے ہوئے پاگل پن اور دیوانگی کی وجہ کیا ہے؟ کچھ پرندوں کو شائبہ ہے کہ اس دیوانگی کے اثرات گدھ میں نظر آ رہے ہیں اور اگر گدھ کو جنگل بدر نہ کیا گیا تو دوسرے تمام پرندے بھی اس آزار کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہاں پہلی کلاس اور کانفرنس کے موضوع کی قربت و مماثلت قاری کے دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔

کچھ عرصے بعد سوشیالوجی کی کلاس سکڑتے ہوئے پانچ لڑکیوں اور اتنے ہی لڑکوں پر مشتمل رہ گئی۔ سیمی اور آفتاب کی قربت زوروں پر تھی لیکن قیوم کا دل دستبردار ہونے پہ تیار نہیں تھا۔ سیمی قیوم کو محض قریبی دوست سمجھتی تھی اور اپنی ذاتی باتیں اس سے شیئر کر لیا کرتی تھی۔

فائنل کے امتحانات سے پہلے دو باتیں ہوئیں۔ سیمی کالج چھوڑ کر چلی گئی اور آفتاب کی شادی ہو گئی، سیمی سے نہیں بلکہ اپنی کزن سے۔ مایوس و دل بر داشتہ سیمی نے پنڈی شفٹ ہونے اور کالج چھوڑنے سے پہلے صرف قیوم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور یہ قربت و ملاقاتیں تب بھی جاری رہیں جب سیمی نے پنڈی سے واپس آ کر پھر سے لاہور میں رہنا شروع کیا۔

آفتاب بیوی کے ساتھ انگلستان چلا گیا، قیوم سیمی کو پانے کے جتن کرنے لگا اور سیمی قیوم سے ملاقاتوں میں آفتاب کو تلاش کرنے لگی۔ سیمی کی گفتگو کا مرکز آفتاب اور اپنی ناکام محبت ہوتی اور قیوم اس کی اسی بات کا سرا پکڑ کر اس کے جسم کے راستے دل تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ قربت کے اس سفر کے دوران قیوم اپنا پس منظر، اپنے گاؤں، خاندان اور دوستوں کی یادیں سیمی اور قارئین کے لئے دہراتا رہتا۔

دونوں کے درمیان جنسی تعلق لارنس گارڈن میں برگد کے نیچے سے شروع ہو کر سیمی کی موت تک جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کو مصنفہ نے موت کے بعد تک شاید اس لیے جاری رکھا کہ شاید انہیں اپنے قارئین کے فہم پر اعتبار نہیں۔ لارنس گارڈن میں برگد کے نیچے گزری بے شمار راتوں کا گواہ لالٹین والا ایک بابا بھی ہے۔

یہیں قیوم قارئین پر انکشاف کرتا ہے کہ وہی اپنے گاؤں اور کالج کا راجہ گدھ ہے۔ قیوم اپنے بھائی، بھابھی اور ابا کی باتیں بھی سناتا ہے۔ چندرا نامی گاؤں، وہاں کے کردار ایک ایک کر کے سامنے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: