نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاست کے تین ستونوں میں سے کمزور ترین قانون ساز ادارے ہیں جنہیں میں اور آپ ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ ہمارے ووٹ کو مگر عزت نہیں دی جاتی۔اصرار ہوتا ہے کہ جاہل اور غریب لوگوں کا ہجوم قیمے والے نان کھلانے والے فیاض شخص کواپنا ووٹ بسااوقات ذات برادری کی لاج رکھتے ہوئے بھی دے دیتا ہے۔ اسے قومی یا صوبائی اسمبلی میں بھیج دینے کے بعد اس کے عمل پر نگاہ بھی نہیں رکھتا۔عوام کی نگرانی سے آزاد ہوا رکن اسمبلی وزیر وغیرہ بننے میں ناکام ہوجائے تب بھی اپنا اثرورسوخ حکومت سے ایسے کام کروانے کے لئے استعمال کرتا ہے جس سے نہ صرف اس کا الیکشن پر ہواخرچہ پورا ہوجائے بلکہ آئندہ انتخاب میں جیت یقینی بنانے کے لئے بھی وافر سرمایہ جمع ہوجائے۔
جس سوچ کا میں ذکر کررہا ہوں ہماری اسمبلیوں کو ”چوروں اور لٹیروں“ کی آماجگاہ بناکر پیش کرتی ہے۔قیام پاکستان کے فوری بعد وطن عزیز کا آئین تیار کرنے سے قبل ہی ہمارے نگہبان اداروں نے پروڈا نامی قانون کے ذریعے سیاست کو ”چوروں اور لٹیروں“سے بچانا چاہا۔ وہ کام نہ آیا تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958میں مارشل لاءکے بعد ایبڈووالے قانون کے ذریعے کئی سیاستدانوں کو ”نااہل“ کردیا۔سیاست دان مگر بدل نہ پائے۔انہیں نیک راہ پر چلانے کے لئے جنرل ضیاءاور جنرل مشرف کے لگائے مارشل بھی کام نہیں آئے۔نگہبانوں نے بھی لیکن ہمت نہیں ہاری ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اب نیب نام کا ادارہ سیاستدانوں کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہے۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کرنے کے بعد 16مہینوں کے لئے برسراقتدار آئی شہباز حکومت نے اس ادارے کے جلادوں والے اختیارات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔”سابق وزیر اعظم جواقتدار میں باریاں لیتے چور اور لٹیروں کے خلاف“ ایمان دار تیسری قوت کی صورت ہمارے سیاسی منظر نامے پر ابھرے تھے نیب قوانین میں ہوئی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔ سابق چیف جسٹس نے ان کی استدعا پر عاجلانہ سماعت کا فیصلہ کیا۔ بالآخر اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل ”شارٹ اینڈ سویٹ“ فیصلہ بھی سنادیا۔نیب کے کھانے والے دانت اب بحال ہوگئے ہیں۔ وہ تقریباََ ہر قدآور سیاستدان کوبآسانی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ظلم یہ بھی ہے کہ نیب پر یہ لازم نہیں کہ وہ عالمی اصولوں کے مطابق کسی شخص پر لگائے الزام کوعدالتوں میں ٹھوس ثبوتوں کے ذریعے ثابت کرے۔ ”نظر بظاہر“ اپنی آمدنی سے زائد اثاثوں کے مالک کو اپنی بے گناہی خود ہی ثابت کرنا ہوگی۔
توقع اب یہ باندھی جارہی ہے کہ عمر عطا بندیال کی جگہ آئے چیف جسٹس عزت مآب قاضی فائز عیسیٰ نیب قوانین میں ہوئی ترامیم کے خلاف آئے فیصلے کو ”پارلیمانی امور“میں مداخلت قرار دیتے ہوئے ”الٹا“ دیں گے۔ ذاتی طورپر اگرچہ میں اس امید میں ہرگز مبتلا نہیں ہوں۔نیب کے ہاتھوں اپنی عزت وساکھ محفوظ رکھنے کا بندوبست بالآخر قانون ساز ادارے ہی کو کرنا ہے۔اس کے قیام کے لئے تاہم نئے انتخابات کا انعقاد درکار ہے جو شاید اگلے برس کی فروری میں ہوسکتے ہیں۔شاید کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ ان دنوں بے تحاشہ محبان وطن تواتر سے اصرار کررہے ہیں کہ نئے انتخابا ت کے انعقاد سے کہیں زیادہ ضرورت فی الوقت معاشی استحکام ہے۔ملک کو دیوالیہ ہونے سے تو بچالیا گیا ہے۔ اب ایک جامع حکمت عملی کی تلاش ہے جو ہماری معیشت کو بحرانوں سے بچاکر استحکام اور پائیداری کی شاہراہ پر ڈالے۔نگران حکومت میں شامل ڈاکٹر شمشاداختر جیسے ٹیکنوکریٹس مطلوبہ راستے تلاش کررہے ہیں۔ان کی کاوشوں سے بجلی،پٹرول اورگیس کی ”واجب قیمتیں“ ہم ”مفت خور“ ادا کرنے کو مجبور ہورہے ہیں۔ ”مفت خوری“ کی عادت بدختم ہوگئی تو محنت سے ”رزق حلال“ کمانے کے قابل ہوجائیں گے۔نسلوں کی اپنائی عادتیں بدلنے میں اگرچہ وقت بہت لگتا ہے اور شاید اسی وجہ سے انتخابات آئندہ برس کی فروری میں نہ ہوپائیں۔
دریں اثناءنئے چیف جسٹس صاحب نے اپنا منصب سنبھال لیا ہے۔پیر کی صبح اٹھ کر میں یہ کالم لکھنا شروع ہوگیا ہوں۔رات گئے تک امید تھی کہ اختیار سنبھالنے کے پہلے ہی دن قاضی صاحب سپریم کورٹ کا فل اجلاس بلائیں گے۔ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پرمشتمل بنچ اس امر پرغور کرے گا کہ گزشتہ اسمبلی نے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کو چند ترامیم کے ذریعے لگام ڈالنے کی جو کوشش کی تھی وہ واجب وجائز تھی یا نہیں۔جب یہ قانون تیار ہورہا تھا تو عمر عطا بندیال صاحب نے اپنے ہم خیال ججوں کے ذریعے اس قانون کے اطلاق کے خلاف حکم امتناعی جاری کردیا تھا۔وہ قانون پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدرِ پاکستان کے دستخطوں سے منظر عام پر آنے کے باوجود اطلاق کے قابل نہ ہوسکا۔عمر عطا بندیال اپنی ترجیح کے مطابق ہی ازخود اختیارات کے تحت غور طلب معاملات کی بابت ہم خیال ججوں پر مشتمل بنچ تشکیل دیتے رہے۔سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ اب یہ فیصلہ کرے گا کہ ازخود اختیارات کے استعمال کا پرانا چلن ہی برقرار رکھنا ہے یاانہیں سابقہ اسمبلی کی تیارکردہ لگام کے ذریعے استعمال میں لایا جائے۔ فل بنچ کی کارروائی مزید ”تاریخی“ اس وجہ سے بھی ہوجائے گی کیونکہ اسے ٹیلی وڑن کے ذریعے براہ راست دکھانے کا بندوبست بھی اتوار کی رات ہنگامی بنیادوں پر ہورہا تھا۔
سیاسی گپ شپ کے عادی اتوار کی سہ پہر سے یہ طے کرنے میں مصروف ہیں کہ پندرہ رکنی بنچ کا بالآخر سنایا فیصلہ 10/5سے آئے گا یا 8/7سے۔ پہلی صورت میں دس عزت مآب جج اس امر پر آمادہ ہوسکتے ہیں کہ ازخوداختیارات کے حوالے سے جو قانون تیار ہوا ہے اس کے خلاف سٹے کو ہٹادیا جائے اور طویل مشاورت کے بعد مذکورہ قانون کی آئینی اور قانونی حیثیت طے کردی جائے۔8/7کی صورت میں عمر عطا بندیال سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے باوجود موجودہ سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کو اپنی سوچ کا وارث ثابت کریں گے۔ میری خواہش تھی کہ 10/5یا 8/7کے سوال پر اپنی رائے بھی دوں۔رائے بنانے کے مگر قابل نہیں رہا۔ مہنگائی کے مسلسل بڑھتے عذاب نے ذہن کوبوکھلادیا ہے۔10/5یا 8/7جیسی بحث مجھے سقوط بغداد سے قبل وہاں کے بازاروں میں ہوئے مناظروں جیسی فروعی محسوس ہورہی ہے۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر