اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دربار بابا بلھے شاہؒ کی تزئین و آرائش!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ 92 نیوز کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ معروف صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ کے مزار کی ماسٹر پلاننگ کے سلسلے میں قائم اعلیٰ سطحی کمیٹی کے ذمہ داروں سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نبیل جاوید، سیکرٹری اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، ڈپٹی کمشنر قصور محمد ارشد ، پراجیکٹ کنسلٹنٹ نیئر علی اور دیگر نے دربار بابا بلھے شاہ کا دورہ کیا اور تعمیراتی منصوبے کی حتمی تفصیل کے ساتھ دیگر امور کا با غور جائزہ لیا۔ اس موقع پر نبیل جاوید اور طاہر رضا بخاری نے کہا کہ مزارات کے انفراسٹرکچر کی اپ گریڈیشن حکومت کا عظیم کارنامہ ہے۔ حکومت کا یہ اقدام قابل تحسین ہے کہ مزارات پر توجہ دی جا رہی ہے، وسیب کے مزارات کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے، محکمہ اوقاف کے پاس ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زائد خواجہ فرید کی وقف اراضی ہے مگر زائرین کیلئے سہولتوں کا فقدان ہے، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خانقاہوں کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے، انتہاء پسندی کے خاتمے کیلئے صوفیاء کی تعلیمات پر عمل کے سوا کوئی راستہ نہیں، بلا شبہ خانقاہیں اور دربار انسان دوستی اور محبت کی تربیت گاہیں ہیں لیکن اس سلسلے میں بزرگان دین کی تعلیمات کے برعکس ہونیوالے اقدامات کی حوصلہ شکنی بھی ضروری ہے کہ اس سے یہ کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ حضرت بابا بلھے شاہ نے اپنے کلام کے ذریعے ہمیشہ انسان دوستی کا درس دیا، مزار کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ اُن کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے سرمایہ داروں اور طالع آزما مذہب کے ٹھیکیدار مذہب کی آڑ لیکر غریبوں کا استحصال کرتے ہیں ، سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کیلئے دولت کے انبار لگاتے ہیں اور پھر ہاتھ میں تسبیح ، ماتھے پر محراب اور ہر سال حج کے علاوہ سال میں کئی بار عمرے ، یہ سب دکھاوے کے عمل ہیں ۔ ہم بابا بلھے شاہ ؒ کے دور کو دیکھتے ہیں اور آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو دکھاوے کی عبادت کرنے والوں کی رفتار تیز ہو گئی ہے ۔ غریب سے کوئی ہمدردی اور غمگساری نہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ سب لوگ ایسے نہیں ‘ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اللہ نے توفیق دی ہے ، وہ غریبوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں ، غریبوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی توفیق سے حج عمرے بھی کرتے ہیں ، مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دولت کے انبار ہیں ، وہ غریبوں کی مدد نہیں کرتے ، البتہ دکھاوے کے لئے سب کچھ کرتے ہیں ۔ عظیم صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور ‘‘ ان کی بات سو فیصد سچ ہے ‘وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ آپ کے حالات زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ 1692ء ( 1103ھ ) میں اوچ شریف ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبداللہ تھا۔ ان کے والد کا نام سخی محمد درویش تھا ۔ آپ چھ سال کی عمر کو پہنچے تو گھر والے اوچ شریف سے پہلے ملک وال اور پھر موضع پانڈو کے (قصور ) آ گئے ۔ بلھے شاہ جوانی میں قصور آ گئے اور مولوی غلام مرتضیٰ سے فیض حاصل کیا ۔ بابا بلھے شاہ حضرت شاہ عنایت قادری کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو اپنا مرشد بنا لیا ۔1141ھ میں جب حضرت شاہ عنایت قادری انتقال کر گئے تو بابا بلھے شاہ ان کے گدنی نشین بن گئے اور قریباً 20 سال تک معروفت اور سلوک کی تعلیم دیتے رہے اور باقی عمر قلندری میں گزار دی ۔ آپ 1757ء (1171ھ ) قصور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ بابا بلھے شاہ بہت بڑے صوفی شاعر اور بزرگ ہیں ، ان کی کافیاں ایک صوفی پر وجد طاری کر دیتی ہیں ، ان کی کافیاں پُر تاژیر ہیں ، بابا بلھے شاہ کی کافیاں اور عارفانہ کلام قریباً ہر خطے میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ اپنی جائے پیدائش اوچ شریف کی شان میں آپ فرماتے ہیں: تساں اُچے تہاڈی ذات وی اُچی تُساں وچ اُوچ دے رہندے اساں قصوری ساڈی ذات قصوری اساں وچ قصور دے رہندے بابا بلھے شاہ ؒ ایک بہت بڑے عالم فاضل تھے ، ان کے حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد سخی شاہ محمد درویش مسجد کے امام تھے اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بلّھے شاہ نے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد قصور جا کر قرآن، حدیث، فقہ اور منطق میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق، نحو، معانی، کنز قدوری،شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواۃ بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔ ایک خاص سطح تک حصولِ علم کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ دنیا بھر کے علم کو حاصل کر کے بھی انسان کا دل مطمئن نہیں ہوسکتا۔ سکونِ قلب کے لیے صرف اللہ کا تصور ہی کافی ہے۔ اسے اپنی ایک کافی میں یوں بیان کیا۔علموں بس کر او یار۔اکّو الف تیرے درکار وہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے شاہ عنایت کے ہاتھ پر بیعت کی جو ذات کے آرائیں تھے اس طرح بلھے شاہ نے ذات پات، فرقے اور عقیدے کے سب بندھن توڑ کر صلح کل کا راستہ اپنایا۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ ان کا جنون آمیز رشتہ ان کی مابعد الطبیعیات سے پیدا ہوا تھا۔ حضرت بابا بلھے شاہؒ کی شاعری انسان دوستی کی شاعری ہے۔ انہوں نے انسان کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔ آپؒ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی شاعری در اصل دلیرانہ اسلوب اور طاقتور خطاب ہے ۔ عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کے مضامین آپ کی شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں ۔ وہ اسلام کے مبلغ تھے مگر انہوں نے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا ۔انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی کلمہ حق کہا ۔ آپ کی صوفیانہ شاعری انسان دوستی کا ایک ایسا حوالہ ہے جو کہ تین صدیاں بیتنے کے باوجود بھی آج کی بات لگتی ہے ۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: