نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر اس کالم میں مارشل میک لوہان کا ذکر بھی رہتا ہے۔ کینیڈا کا مشہور محقق جس نے ٹیلی وڑن کے متعارف اور مقبول ہوجانے کے بعد اس کے”ابلاغ کی محدودات“ کو دریافت کیا۔اس کی ”اوقات“ پہچان لی تو ٹی وی کو ”ایڈیٹ باکس“کا نام دیا۔گزشتہ دنوں سے مگر میک لوہان ایک اور تناظر میں یاد آرہا ہے۔
کئی مہینوں سے یہ سوچتے ہوئے حیران ہوجاتا ہوں کہ روس کو یوکرین پر حملہ کئے تقریباََ 20ماہ گزر چکے ہیں۔بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی ابتداََ یہ گماں تھا کہ اپنی بھاری بھر کم افواج اور جدید ترین اسلحہ کی بدولت روس یوکرین پر قابض ہونے میں دو ہفتے بھی نہیں لگائے گا۔ یوکرین میں لیکن اسے تاریخی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔فی الوقت مجھے روس -یوکرین تنازعے کی بنیادی وجوہات اور اس میں ملوث فریقین میں سے کسی ایک کو ”بجانب حق“ ثابت کرنے کی مہلت میسر نہیں۔ اصل فکر یہ لاحق ہے کہ مذکورہ تنازعے کی وجہ سے پاکستان جیسے بے تحاشہ ممالک کے غریب عوام کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے علاوہ غذائی بحران کو سنگین تر بنانے میں بھی روس -یوکرین جنگ کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔دنیا بھر میں کروڑوں افراد پر مذکورہ جنگ کی وجہ سے جوعذاب جاری ہے اس کے تدارک کے لئے ”عالمی ضمیر“ نامی کوئی شے متحرک ہوتی نظر نہیں آرہی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امن کو یقینی بنانے کے نام پر قائم ہوا ”اقوام متحدہ“ نامی ادارہ بھی اس ضمن میں قطعاََ مفلوج اور مضحکہ خیز حد تک بے بس نظر آرہا ہے۔
یورپ میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دورا ن ویسی لاتعلقی دیکھنے کو نہیں ملی تھی جو ان دنوں نمایاں ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پہلی جنگ عظیم کا فکر مندانہ جائزہ بھی دوسری جنگ عظیم روک نہیں پایا تھا۔ دوسری جنگ کے بعد مگر دنیا بھر کے سوچنے والوں نے نہایت لگن سے امن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔جنگی جنو ن کی مذمت کئی دہائیوں تک جدید انسان کی فطرت کا حصہ بنی محسوس ہوئی۔ اب کی بار مگر یورپ کی حکمران اشرافیہ امریکہ کے ساتھ مل کر یوکرین کو ہلاشیری دینے میں مصروف ہے۔یوکرین کی تاریخی مزاحمت کو اساطیری داستانوں کی صورت بیان کرتے ہوئے امید یہ باندھی جارہی ہے کہ وہ خود کو مزاحمت کے دوران تباہ و بدحال کرلینے کے باوجود روس کو بھی اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ وہ کسی دوسرے یورپی ملک کو آنکھیں دکھائے۔ امریکہ میں اس جنگ کی بدولت اسلحہ ساز فیکٹریاں یوکرین کو روسی افواج کے سامنے ڈٹے رہنے کو یقینی بنانے کے لئے اپنی پیداوار اور منافع مسلسل بڑھارہی ہیں۔ روس ایک وسیع تر اور قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔وہاں کے عوام کی اکثریت اس وہم میں مبتلا ہے کہ ان کا صدر پوٹن یوکرین پر حملہ آور ہوتے ہوئے ”روسی مادر وطن“ کا اپنی ”تاریخی زمین“ کے ساتھ احیاءکرنا چاہ رہا ہے۔ وہ اگر یوکرین پر حملہ آور نہ ہوتا تو اس ملک نے نیٹومیں شامل ہوکر ایک دن روس پر چڑھ دوڑنا تھا۔ اسلحہ سازوں کی منافع خوری اور روس کے قوم پرستانہ جنون میں سے کسی ایک کی حمایت ہم جیسے افراد کے لئے ممکن نہیں۔ بے بسی سے وہاں جاری جنگ کی وجہ سے خود پر نازل ہوئی معاشی اذیتوں کو برداشت کئے جارہے ہیںاور ہمارے د±کھوں کے مداوے کی کوئی صورت بھی نظر نہیں آرہی۔
ابتداََ مجھے یہ وہم تھا کہ روس-یوکرین جنگ کی طوالت یورپی اور امریکی دانشوروں کو بالآخر اس کی مذمت کو مجبور کردے گی۔ وہ نہایت خلوص سے کوئی ایسا بیانیہ تشکیل دے پائیں گے جو فریقین کو ”ہتھ ہولا“ رکھنے پر مائل کرے۔ پورے عالم میں اس جنگ کی وجہ سے نازل ہوئے عذاب کا احساس کریں۔ ایسا مگر ہونہیں رہا۔
ہفتے کے روز میرے ہاں جو ”نیویارک ٹائمز“ آیا اس کے اندرونی صفحات پر ایک کہانی چھپی تھی جس نے مجھے مزید اداس کرڈالا۔مذکورہ کہانی کے مطابق بی بی سی کا ایک مشہور اینکر ہے۔وہ کئی برسوں سے رات دس بجے ایک شو کرتا ہے جو حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے ”رائے سازی“ میں سرکردہ کردار ادا کرتا ہے۔میں جان بوجھ کر اس اینکر کا نام نہیں لکھ رہا۔ بہرحال اس کا نام لئے بغیر برطانیہ کے ایک چسکہ فروش اخبار ”دی سن“ نے یہ ”خبر“ دی کہ مذکور ہ اینکر کم عمر نوجوان کو بھاری بھر کم رقم دے کر اسے اپنی فحش تصاویر بھیجنے کو راغب کرتا رہا ہے۔
بی بی سی ایک سنجیدہ اور روایت ساز ادارہ تصور ہوتا ہے۔ ایسے ادارے کو ان دنوں Legacy Mediaکہا جاتا ہے یعنی تاریخی شناخت والا صحافتی ادارہ۔ اس شناخت کوذہن میں رکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی بی سی دکھاوے کو ”سن“ جیسے چیتھڑے اخبار میں چھپی خبر کو نظرانداز کردیتا۔نہایت خاموشی سے مگر ”انٹرنل انکوائری“ کی بدولت حقائق کا سراغ لگایا جاتا ہے۔ مذکورہ عمل سے گزرنے کے بجائے بی بی سی نے اپنے ہی خبرنامے میں اس کہانی کو اچھالنا شروع کردیا۔ نام اپنے اینکر کا اس نے بھی نہیں لیا۔ ”صدمے“ سے تاہم وہ اینکر ہسپتال داخل ہونے کو مجبور ہوگیا۔ اس کی سکرین سے عدم موجودگی نے ”حقیقت“ کھول کررکھ دی۔بات مزید اچھلی تو برطانوی پولیس سے روابط بھی ہوئے۔ اس نے مگر سرکاری طورپر یہ اعلان کردیا کہ (فی الوقت) اس کے پاس ایسے شواہد موجود نہیں ہیں جو مذکورہ اینکر پر لگائے الزامات کی تصدیق فراہم کریں۔ پولیس کے اعلان کے بعد یہ سکینڈل بریک کرنے والے ”سن“ اخبار نے بھی یہ کہتے ہوئے معاملہ دبادیا کہ جو ”حقائق“ اس کے پاس تھے وہ بی بی سی کو بھجوادئے گئے ہیں۔وہ ان کی جانچ پڑتال کے بعد مذکورہ اینکر کے بار ے میں کوئی فیصلہ لے سکتا ہے۔ چسکہ بھری کہانی کا یوں اختتام ہوا محسوس ہورہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں تاہم اس کے بارے میں جو خبر چھپی ہے بنیادی طورپریہ سوچتے ہوئے حیرانی کا اظہار کرتی رہی کہ بی بی سی جیسے تاریخی اور روایت سازصحافتی ادارے نے مذکورہ سکینڈل کو اپنی خبروں میں نمایاں کیوں رکھا۔ اس سکینڈل کی بدولت اچھالے کیچڑ کی وجہ سے بی بی سی اس کانفرنس کی بھرپور کوریج بھی نہ کرپایا جو چند روز قبل نیٹو کے سربراہان مملکت اور حکومت کے مابین ہوئی تھی۔ امریکی صدر نے اس سے اہم خطاب کیا تھا۔ وہاں برطانیہ کا وزیر اعظم بھی موجود تھا۔ اس نے بھی یوکرین کی حمایت میں دھواں دھار تقریر کی۔ وہ مگر بی بی سی کی کماحقہ توجہ نہ حاصل کرپائی۔
اس خبر کو پڑھتے ہوئے مجھے میک لوہان کا ایک مضمون یاد آگیا جو مصر تھا کہ جدیدذرائع ابلاغ کی بدولت دنیا کا ایک ”گا?ں“ میں سکڑنا انسانیت کے لئے خیر کی خبر ہرگز نہیں۔ ”گاﺅں“ کو اس نے پسماندگی کی علامت ٹھہرایا جہاں کے باسی ایک دوسرے پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔”پنجابی والا“شریکا نبھاتے باہمی دشمنی میں قتل وغارت گری سے بھی باز نہیں رہتے۔ سوشل میڈیا نے دنیا کو واقعتا ویسا ہی ”گاوں“بنادیا ہے جہاں ہم دوسروں کی خامیاں ڈھونڈ کر انہیں چسکہ لیتے ہوئے اچھالتے ہیں۔ جسکہ فروشی کی ہوس میں انسانوں کو مہلت ہی میسر نہیں کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جیسے سنگین مسائل پر توجہ دیں اور اس کی وجہ سے دنیا کے بے تحاشہ غریب ملکوں پر نازل ہوئے عذاب کا مداوا تلاش کریں۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر