نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارہا اس کالم میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ پاکستان کے غریب اور سفید پوش طبقات کا ’دیوالیہ‘ تو عرصہ ہوا ہو چکا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے سوال فقط اتنا تھا کہ ریاستِ پاکستان بھی اس سے محفوظ رہ پائے گی یا نہیں۔ جناتی انگریزی میں ہمیں ملکی معیشت کی بابت آگاہ رکھنے والے مسلسل دہائی مچاتے رہے کہ ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر بات سرجھکا کر مان لیں۔مفتاح اسماعیل نے تاہم موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اس جانب قدم بڑھائے تو عوام کی اکثریت بلبلا اٹھی۔ بجلی ، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے نے تنخواہ دار اور دیہاڑی پر گزارہ کرنے والوں کی کمر توڑ دی۔
ان کی تسلی کے لیے مفتاح کو قربانی کے بکرے کی صورت فارغ کرنا پڑا۔ ان کی جگہ اسحاق ڈار آئے۔شہرت ان کی ’ڈالرشکن‘ کی صورت کئی برس قبل ہی ثابت ہو چکی تھی۔ اب کی بار مگر ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘۔کافی اڑی دکھانے کے بعد بالآخر ان کو بھی سر جھکانا ہی پڑا ہے۔ ہفتے کی سہ پہر قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈار صاحب نے درحقیقت ایک نیا بجٹ متعارف کروایا ہے جو کئی اعتبار سے ان تجاویز سے کامل ہٹ کر ہے جو انھوں نے ر واں مہینے کی 9 تاریخ کو پیش کی تھیں۔ سوال اگرچہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ موصوف اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
مجھ جیسے قلم گھسیٹ ان دنوں آپ کو ’خبر‘ دینے کے لیے کالم نہیں لکھتے۔ دنیاوی مقصد ہماری یاوہ گوئی کا اخبار میں چھپے کالم کے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجانے کے بعد زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کا حصول ہوتا ہے۔ مذکورہ خواہش کو ترجیح دوں تو آج کے کالم میں وزیر خزانہ سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے پوچھنا چاہیے کہ صاحب، آپ کی لگائی بڑھکوں کا کیا ہوا۔طبیعت مگر اس جانب مائل نہیں ہو رہی۔ ہفتے کی سہ پہر ان کی تقریر سنتے ہوئے مجھے بلکہ ترس آیا۔ حالات کے جبر کے آگے جھکے شخص سے چھیڑچھاڑ میری دانست میں سفاکی ہے۔اسے بھلے وقتوں کے لیے بچالیتے ہیں۔
فی الوقت یہ حقیقت نہایت خلوص سے تسلیم کرنا ہوگی کہ 1950ء کی دہائی کاآغاز ہوتے ہی ہماری ریاست نے پاکستان کی ’جغرافیائی اہمیت‘ کو اپنی معیشت کی کلید بنالیا تھا۔ دنیا ان دنوں کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ خیموں میں تقسیم تھی۔ ہم نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جن کا ساتھ دیا تھا وہ ہمارے ’جغرافیے‘ اور انسانی وسائل سوویت یونین کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اس کے عوض ’امداد‘ اور سستی شرائط پر قرض مہیا ہونے کی علت بتدریج ہماری جبلت کا حصہ بن گئی۔ بالآخر 1990 کی دہائی میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اسے وہاں تک پہنچانے کی سعادت جنرل ضیاءالحق کو نصیب ہوئی۔ ’افغان جہاد‘ بھڑکائے رکھنے کو ’جمہوری دنیا‘ ان کے کئی برسوں تک صدقے واری جاتی رہی۔ روسی افواج مگر افغانستان سے رخصت ہوگئیں تو جنرل ضیاءکو احساس ہوا کہ ’کوئلے‘ کی دلالی میں ہمارے حصے کالک ہی آئی ہے۔اس دکھ سے نجات ڈھونڈ نہ پائے تھے کہ 1988ء میں فضائی حادثے کی نذر ہو گئے۔
ان کے بعد آئی حکومتوں کو نئی پالیسیاں متعارف کروانا تو دور کی بات ہے ان کی بابت غور کی مہلت بھی نہ ملی۔ حکومت سے باہر بیٹھی جماعتیں ایک طاقتور صدر اورریاست کے دیگر اداروں کی سرپرستی میں حکمران جماعت کی زندگی اجیرن بناتی رہیں۔ایک دوسرے پر کرپشن کے سنسنی خیز الزامات لگاتے ہوئے خلقِ خدا کی نگاہ میں تمام سیاستدانوں نے خود کو نااہل اور بدعنوان ثابت کر دیا۔ ’اقتدار میں باریاں‘ لینے کا تاثر ہمارے دلوں میں جم گیا تو اکتوبر 1999ء ہو گیا۔
جنرل مشرف کی صورت اس مہینے ایک اور ’دیدہ ور‘ نمودار ہوا۔ ہماری معیشت کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے انھوں نے عالمی سطح پر مشہور ہوئے بینکار شوکت عزیز کی فراست سے رجوع کیا۔ ’کرپٹ‘ سیاستدانوں کو احتساب کے حوالے کرکے امید باندھی کہ وہ کھمبوں سے الٹکا لٹکے اپنی ’چھپی ہوئی دولت‘ قومی خزانے کے سپرد کردیں گے۔ دوکانداروں سے ٹیکس جمع کرنے کے لیے سرویز کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
جنرل صاحب کے سات نکاتی ایجنڈا کے تحت جن ’انقلابی اصلاحات‘ کا ارادہ باندھا تھا ابھی پرواز کے قابل بھی نہ ہوئی تھیں تو امریکا میں نائن الیون ہوگیا۔ پاکستان کی ’جغرافیائی اہمیت‘ ایک بار پھر ’مہذب دنیا‘ کو یاد آ گئی۔ امریکی صدر بش ہمارے جنرل صاحب کے جگری یار بن گئے۔ ’امداد‘ اور ’سستی شرائط‘ پر قرض کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ تقریباً نو برس تک اس کی وجہ سے رونق لگی رہی۔ دریں اثناء 2008ء آگیا۔ نو منتخب صدر اوباما نے فیصلہ کیا کہ امریکی قوت اور وسائل کو خواہ مخواہ کی مسلط کردہ جنگوں میں ضائع نہ کیا جائے۔ وہاں کی عسکری اشرافیہ اوباما کی اس سوچ سے تلملا اٹھی۔ اسے دیوار سے لگاتے ہوئے مجبور کیا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کو وہ ملک ’سیدھا‘ کرنے کی مہلت دی جائے۔ وہ آمادہ تو ہوا مگر اپنے رویے سے بتدریج واضح کر دیا کہ ’افغان سیزن‘ زیادہ عرصے تک چلایا نہیں جا سکتا۔
واشنگٹن کی بدلی سوچ متقاضی تھی کہ پاکستان اپنی معیشت مستحکم و خوش حال بنانے کے لیے’جغرافیائی اہمیت‘ کے علاوہ بھی کچھ نئے راستے دریافت کرے۔ اس جانب توجہ دینے کے بجائے قوم کو ’عوامی قوت‘ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے ایک اور ’دیدہ ور‘ یعنی افتخار چودھری نے جعلی ڈگریوں اور کرپٹ حکومتوں کے خلاف سیاپا فروشی میں الجھادیا۔ جو ماحول موصوف کی بدولت بنا اس نے 2011ء میں ’نوجوان نسل‘ کی توانائی بھری حمایت کے ساتھ کرکٹ سے سیاستدان ہوئے ایک اور ’دیدہ ور‘ کو ہمارا ہیرو بنا دیا۔ 2013ء کے انتخاب کے فقط ایک برس بعد اسلام آباد میں دھرنا ہوا۔ وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہو گیا تو اپریل 2016ء سے ’پاناما ڈرا ما‘ شروع ہوگیا۔ انجام اس کا 2018ء کے انتخاب تھے جس کے نتیجے میں ’دیدہ ور‘ کو اقتدار نصیب ہوا۔ انھیں ’سیم پیج‘ کی قوت بھی حاصل رہی۔ پاکستان کی معیشت بدلنے کو ’انقلابی اصلاحات‘ تاہم متعارف نہ ہوپائیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل موصوف آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کی بڑھک لگایا کرتے تھے۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد مگر عالمی معیشت کے نگہبان اس ادارے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ جو تین سالہ معاہدہ ہوا اس پر کامل عمل درآمد سے البتہ گریز کیا۔ آئی ایم ایف نے خفاہوکر ’امدادی رقم‘ روکی تو ’امریکی سازش‘ کی دہائی مچاتے ہوئے اقتدار سے فارغ ہو گئے۔
گزشہ کئی دہائیوں کا بوجھ موجودہ حکومت نے اب اپنے سر لیا ہے۔ اس کا تمسخر اڑانا مجھے بے پناہ شیئرز اور لائیکس تو فراہم کردے گا مگر حقائق بدل نہیں پائے گا۔ کڑا وقت ہے۔ خلوص دل سے دعا مانگیں کہ رب کریم اسے مختصر تر کردے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر