نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قمر جاوید باجوہ صاحب کی اپنی پسند کے صحافیوں کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد ہوئی گفتگو منظر عام پر آ جائے تو وہ اس کی تردید کر دیتے ہیں۔ یوں معاملہ محبوب کی اس کمر جیسا ہوجاتا ہے جس کے بارے میں غالب سوچتے ہی رہ گئے کہ وہ ہے یا نہیں ہے۔ غالب کو ایسے سوال اٹھانے کے لیے مگر شاعری کی سہولت حاصل تھی اور وہ اس ہنر پر کامل گرفت کے حامل تھے۔ دورِ حاضر کے ’صحافی‘ کو ان کے برعکس اپنی بیان کردہ کہانیوں کے لیے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی طلب لاحق ہو چکی ہے۔ استعارے اور تلمیحات اس ضمن میں کام نہیں آتے۔ بات کھل کے بیان ہوگی تو لوگوں کو لطف آئے گا۔ لائیکس اور شیئرز ملیں گے۔
باجوہ صاحب کا حالیہ انٹرویو مگر ضرورت سے کہیں زیادہ منہ پھٹ تھا۔ اس کا پہلا حصہ منظر عام پر آیا تو میڈیا کا یہ طالب علم اس کالم میں نہایت درد مندی سے التجا کرنے کو مجبور ہوا کہ سب کچھ عیاں کردینے کے ہذیانی لمحات سے مغلوب ہوئے چھ برس تک ہماری ریاست کے طاقت ور ترین سربراہ رہے باجوہ صاحب کو کم از کم اپنے ’مادر ادارے‘ کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ صحافی اور سیاستدان پنجابی محاورے والی لِسی یعنی کمزور پارٹی ہوتے ہیں۔ انھیں رعونت بھرے ہذیان کا نشانہ بناتے رہیں۔
موصوف کے ’فرضی‘ یا ’اصل‘ انٹرویو کا جو حصہ میرا کالم چھپنے کے بعد منظر عام پر آیا اس کا اصل نشانہ میری دانست میں وہ ادارہ ہے جس سے ہم ذلتوں کے مارے انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔ اس ادارے کے چند نمایاں افراد کے نام لے کر باجوہ صاحب ’ٹک ٹاک کے اثر‘ کا ذکر کرتے ہوئے یاوہ گوئی میں مصروف رہے۔ تیر کمان سے نظر بظاہر چلا دینے کے بعد تاہم منصور علی خان اور سلیم صافی سے فون پر گفتگو کی۔ مذکورہ انٹرویو کو فرضی ٹھہرا دیا۔
بالواسطہ اجاگر کی یہ ’تردید‘ مگر ان زخموں کا ازالہ نہیں جو باجوہ صاحب سے منسوب گفتگو ایک نہیں کئی معتبر ناموں کو لگا چکی ہے۔ ان کی شدت اس وجہ سے بھی اپنی جگہ برقرار ہے کیونکہ ان سے منسوب گفتگو کو رپورٹ کرنے والے شاہد میتلا ڈٹے ہوئے ہیں کہ انھوں نے باجوہ صاحب سے تفصیلی ملاقات کی ہے۔ اس کے دوران آف دی ریکارڈ ہوئی کئی باتوں کے علاوہ ’آن دی ریکارڈ‘ فقرے بھی طے ہو گئے تھے۔
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن ہی نہیں کہ شاہد میتلا پر اعتبار کروں یا باجوہ صاحب کی دیگر معتبر ساتھیوں کے وسیلے سے آئی تردید پر۔ دو ٹکے کے رپورٹر نے خود کو کبھی ’منصفی‘ کے قابل نہیں سمجھا۔ ’ٹک ٹاک کے اثر‘ کے حوالے سے باجوہ صاحب نے جن عزت مآب صاحبان کو زک پہنچائی ہے انھیں مگر حقائق کا کھوج لگانا چاہیے۔ جن کی ساکھ کو ٹھیس لگی ہے ان کا تضحیک آمیز ذکر ہمارے تحریری آئین کے مطابق ممنوعہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی ساکھ کا تحفظ ان دنوں اس لیے بھی لازمی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے 30 اپریل کے روز ہوئے انتخاب مؤخر کر دیے گئے ہیں۔ واجب وجوہات کی بنیاد پر تحریک انصاف مذکورہ تاخیر کو ’توہین عدالت‘ تصور کرتے ہوئے اپنی فریاد وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت میں جمع کروا چکی ہے۔ اس فریاد کی شنوائی کے لیے اگر ان ہی عزت مآب افراد کا انتخاب ہوا جنھیں باجوہ صاحب نے مبینہ طور پر ’ٹک ٹاک‘ کے زیر اثر ٹھہرایا ہے تو تحریک انصاف کے دیرینہ ناقدین کئی سوالات اٹھائیں گے۔ اشرافیہ کی غلام رعایا کا ادنیٰ رکن ہوتے ہوئے فقط اس توقع کا اظہار ہی کر سکتا ہوں کہ ایک حساس ترین موضوع کو زیر غور لانے سے قبل یہ طے کر لیا جائے کہ قمر جاوید باجوہ صاحب نے مذکورہ انٹرویو دیا تھا یا نہیں۔ اس کے دوران ’ٹک ٹاک‘ کے اثر کا ذکر بھی ہوا تھا یا نہیں۔
مذکورہ انٹرویو روایتی اور سوشل میڈیا پر رش نہ لے رہا ہوتا تو آج کے کالم کو میں فقط ایک اور موضوع تک محدود رکھتا۔ معاشی امور سے میں تقریباً نابلد ہوں۔ خارجہ امور کی رپورٹنگ پر دو سے زیادہ دہائیوں تک مامور رہنے کی وجہ سے البتہ یہ جان چکا ہوں کہ آئی ایم ایف عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ ہوتے ہوئے مدد کے طالب ممالک کے ’سیاسی معاملات‘ پر تبصرہ آرائی سے گریز کرتا ہے۔ وہ خود کو محض ایک ’بینک‘ کی پہچان تک محدود رہنے کو مصر ہے۔ اس سے قرض یا مدد مانگنے جاؤ تو ویسے ہی سوالات اٹھاتا ہے جو کوئی بھی ’ساہوکار‘ قرض کے محتاج یا عادی ہوئے فرد کے روبرو اٹھائے گا۔
پنجاب اسمبلی کے انتخابات آٹھ اکتوبر تک موخر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جو وجوہات بیان کیں ان میں پاکستان کی ’معاشی مشکلات‘ کا ذکر بھی تھا۔ تاثر یہ دیا کہ آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لیے ہماری ریاست بے تحاشا منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرمایہ فراہم نہیں کر سکتی۔ انتخاب کروانے کے لیے درکار سرمایہ بھی اس تناظر میں فی الوقت میسر نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے بیان کردہ جواز منظرعام پر آئے تو میری ناقص یادداشت کے مطابق غالباً تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے ایک بیان جاری کیا جس میں ہماری حکومت کو ’آئینی تقاضے‘ یاد دلائے گئے ہیں۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی چھتری تلے چلایا سیاسی نظام ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے دنیا کے بے تحاشا غریب ممالک کے روبرو بطور ’ماڈل‘ اجاگر کرتے رہے ہیں۔ اس دور کو اب کم لوگ یاد رکھے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ادوار تاہم میری نسل کے لیے حالیہ تاریخ ہیں۔ افغانستان کو کمیونسٹ روس کے قبضے سے آزاد کروانے کے لیے ورلڈ بینک وغیرہ نے ضیاء حکومت کی دل کھول کر مدد کی تھی۔ ہمارا آئین 1985 ءمیں ہوئے ’غیر جماعتی‘ انتخابات سے قبل آٹھ برس تک ’معطل‘ رہا۔ ہماری تمام سیاسی جماعتیں بلا استثنا ’کالعدم‘ ٹھہرا دی گئی تھیں۔ اخبارات میں کوئی خبر یا مضمون چھپنے سے پہلے سنسر کی چکی سے گزرتے تھے۔ جن صحافیوں نے اس کی مزاحمت کی ان میں سے ناصر زیدی جیسے مسکین کو برسرعام کوڑے بھی لگائے گئے۔ سینکڑوں سیاسی کارکن اس عہد میں اپنی جوانیاں جیلوں کی نذر کردینے کو مجبور ہوئے۔ جو بچ گئے جلاوطنی کے معتوب ہوئے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ اس دوران ایک بار بھی آئی ایم ایف نے پاکستان کو اس کی ’آئینی ذمہ داریاں‘ یاد دلائی تھیں۔
’آئینی ذمہ داریوں‘ سے آئی ایم ایف کا تغافل جنرل مشرف کے دور میں بھی جاری رہا۔ گزشتہ برس کے اپریل سے اقتدار میں آئی شہباز حکومت نے مگر ’تاریخ‘ بنا دی ہے۔ اس کی تشکیل ’آئینی تقاضوں‘ کے عین مطابق ہوئی تھی۔ تحریک عدم اعتماد اس کا وسیلہ تھا۔ آئینی تقاضوں کے مطابق قائم ہوئی اس حکومت کو بھی لیکن عمران خان اور ان کے حامی تسلسل اور حقارت سے ’امپورٹڈ حکومت‘ پکارتے ہیں۔ مذکورہ حکومت مبینہ طور پر واشنگٹن سے ’امپورٹ‘ ہوئی تھی جو آئی ایم ایف کی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسے مگر اب اقتصادی اعتبار سے سہارا فراہم کرنے کے بجائے ’آئینی تقاضے‘ یاد کرائے جا رہے ہیں۔ ’تبدیلی‘ واقعتاً آ چکی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر