مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندگی کیلئے آٹا اور آٹے کیلئے موت!!!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سرگودھا میں مفت آٹا تقسیم مرکز کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ آٹے کی مفت فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کس کس کی کوتاہی برداشت نہیں کریں گے؟ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا۔ عام اہلکار سے لیکر بڑے افسر تک سب کرپٹ ہیں۔ مفت آٹے کی تقسیم سے بہتر تھا کہ مستحقین کو ان کے اکائونٹ میں امدادی رقم دے دی جاتی۔ وزیراعظم نے رمضان پیکیج کے طور پر 25 شعبان المعظم سے 25 رمضان المبارک تک مستحقین کو 10 کلو کے تین آٹے کے تھیلے دینے کی ہدایات دی تھیں، ابتدائی طور پر استحقاق کا معیار بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رجسٹریشن قرار دیا گیا ۔ آٹے کی ترسیل شروع ہو چکی ہے لیکن کسی متعلقہ محکمے نے نئی رجسٹریشن کا طریق کار وضع نہیں کیا اور کم آمدنی والے غیر رجسٹرڈ حضرات تاحال محرومی کا شکار ہیں۔پنجاب حکومت نے مفت آٹا سکیم کے آغاز کے ساتھ ہی سبسڈائز آٹے کا سلسلہ منقطع کر دیا جس پر مل مالکان نے سستے آٹے کی پسائی ختم کر کے 10 کلو آٹے کا تھیلا 1168 روپے کر دیا ہے جس سے رجسٹریشن نہ ہو سکنے کے باعث مستحق افراد بھی مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کی طرف سے 22مارچ سے شروع ہونے والی مفت آٹا سکیم میںبد انتظامی کے دوران اب تک چھ افراد کی جانیں چلی گئی ہیںلیکن انتظامیہ عزت اور سکون سے آٹے کی تقسیم کا طریقہ کار نہیں بنا سکی۔ گزشتہ روز بھکر میں گھنٹوں قطار میں باری کا انتظار کرنے والا شخص دم توڑ گیاجبکہ مظفر گڑھ میں بھگدڑ سے بزرگ خاتون جاں بحق ہو گئی، اس سے پہلے ملتان اور کوٹ ادو میں مفت آٹا لینے کیلئے قطاروں میں انتظار کرنے والے دو افراد دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے، وسیب میں آٹا مہنگا اور موت سستی ہو چکی ہے۔ لوگ آٹا لینے جاتے ہیں مگر طویل انتظار اور بد انتظامی کے باعث بھگدڑ سے خود لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ میں مفت آٹا نہ ملنے پر شہریوں نے اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے احتجاج کیا، اس دوران ایک خاتون نے اسسٹنٹ کمشنر کی واسکٹ اتارلی جس پر اسسٹنٹ کمشنرکے گارڈ نے خاتون کو تھپڑ مارا تو شہری مشتعل ہوگئے اور اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی پر حملہ کردیا، یہ وسیب کے شہر تونسہ کی جھلک تھی ، کہنے کو تو کہا گیا کہ سابق وزیر اعلیٰ نے تونسہ کو پیرس بنا دیا تھا یہ پیرس کا حال ہے اور یہ بھی دیکھئے کہ ضلع تونسہ کا نوٹیفکیشن معطل ہوا اور پھر ہائیکورٹ نے اُس نوٹیفکیشن کو بھی معطل کر دیا، اب یہ پتہ نہیں چل رہا کہ تونسہ ضلع ہے یا تحصیل ۔ وسیب میں مفت آٹے کے حصول کیلئے خواتین اور بزرگوں کا ذلت آمیز لائنوں میں کھڑا ہونا اور لائنوں میں کھڑے کھڑے اور بھگدڑ سے زندگی کی بازی ہار جانا سوالیہ نشان ہے۔ وسیب دنیا کا زرخیز ترین خطہ ہے مگر وسیب سے غربت ، بیروزگاری اور بیماری میں پہلے نمبر پر کیوں ہے؟۔ اسی بناء پر شاکر شجاع آبادی نے کہا تھا کہ ’’وسیب کوں کئیں غریب کیتے، امیرزادو! جواب ڈیوو‘‘۔ وسیب کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں جس نے بھی دھکیلا ہے اسے جواب دینا ہوگا۔ وسیب کو محکوم اور پسماندہ بنانے میں جہاں مقتدر قوتوں کا جبر ہے وہاں وسیب کے جاگیرداروں ، گدی نشینوں اور وڈیروں کی منافقت بھی شامل ہے، اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ گندم اور اناج کا مرکز وسیب آج بھوک سے مرر رہا ہے۔ قیس فریدی نے سچ تو کہا تھا ساری دھرتی دے کھیت جئیں رادھن اوندے گھر دا اناج کیڈے گیا؟ مہنگائی کی شرح 46 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، غریب آدمی زندہ درگور ہو چکا ہے۔ ادارہ شماریات کی طرف سے ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 46.65 فیصد ہو گئی ۔ ایک ہفتے میں 26 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک کی مجموعی پیداوار کا 70فیصد وسیب مہیا کرتا ہے مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث وسیب کے لاکھوں افراد بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں ، ہر دور حکومت میں وسیب کا جو حال ہوا ہے صوبہ بنانے کا وعدہ تو اپنی جگہ رہا وسیب کو ایک بھی انڈسٹریل زون نہیں دیا گیا جو شہر پہلے سے صنعتی ترقی کا حب بنے ہوئے ہیں نئے انڈسٹریل زون بھی انہی علاقوں کو دئیے ہیں اور وسیب کو صرف لولی پاپ کے سوا ابھی تک کچھ نہیں ملا، غربت اور بیروزگاری کے باعث وسیب کے لوگوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔ آٹے کے حصول کیلئے لوگ مرر ہے ہیں مگر مولانا فضل الرحمن ، آصف زرداری ، مریم نواز کو کوئی پرواہ نہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کو بھی فوٹو سیشنوں سے فرصت نہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے مینار پاکستان لاہور میں بہت بڑا جلسہ کیا ہے مگر وہاں بھی عمران خان نے قوم کو غربت سے نجات دلانے کا کوئی لائحہ عمل اور کوئی منصوبہ نہیں دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی جنگ ہو رہی ہے، عمران خان کا سارا زور الیکشن کے انعقاد پر ہے ، الیکشن ہونے بھی چاہئیں مگر کیا الیکشن کے بعد ملک اور قوم کے مسئلے حل ہو جائیں گے ؟۔ عمران خان جادو اور چومنتری کی بات کریں تو بھی فضول ہے کہ عمران خان کی 9 سال خیبرپختونخواہ اور چار سال مرکز اور پنجاب میں حکومت دیکھ لی ہے۔ اب الیکشن کی بجائے دستور ساز اسمبلی کے الیکشن کی بات ہونی چاہئے کہ 1973ء کا آئین اپنے خالق اور خود اپنے آپ کو نہ بچا سکا۔ پاکستان کا سب سے بڑا سوال قومی سوال ہے پاکستان میں بسنے والی قوموں کے حقوق اور ان کی زبان ، ثقافت ، شناخت ہی پاکستان اور وفاق پاکستان کے استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔خدارا! حکمران اور سیاستدان عوام پر رحم کریں اور قوم کو مزید ذہنی اذیت دینے کی بجائے اُسے مہنگائی اور بیروزگاری کی دلدل سے نکالنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کریں۔

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: