نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارلیمانی کارروائی کے مشاہدے کی بدولت میں نے صحافت میں تھوڑا نام کمایا ہے۔ 1985ء سے رواں برس کے وسط تک قومی اسمبلی اور سینٹ کے ہر اجلاس کو پریس گیلری میں بیٹھ کر دیکھتا رہا ہوں۔ کمر اور آنکھوں کی تکلیف نے مگر چند ہفتوں کے لئے کار چلانے سے روکا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پارلیمان بھی نہیں جاسکتا اور اس کی بابت بہت اداس محسوس کرتا ہوں۔ گزرے ہفتے جمعرات کی شام مگر بہت چاﺅ سے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ایک دوست کی معاونت سے وہاں چلا گیا۔ صدر عارف علوی کو اس روز نئے پارلیمانی سال سے وابستہ روایتی خطاب کرنا تھا۔
علوی صاحب تحریک انصاف کے بانی اراکین میں نمایاں ترین رہے ہیں۔ عمران خان صاحب نے ان کی وابستگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے وطن عزیز کا صدر بنوایا۔ ہمارا تحریری آئین اس عہدے کو وضاحت سے محض علامتی قرار دیتا ہے۔عمران حکومت کے دوران علوی صاحب بھی مطلوبہ کردار فدویانہ انداز میں ادا کرتے رہے۔تحریک عدم اعتماد کی بدولت جب ان کے قائد مگر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو گئے تو نہایت ڈھٹائی سے نئی حکومت کے لئے آئین کی من پسند تشریحات سے مشکلات کھڑی کرتے رہے۔ ان دنوں اگرچہ ”بدلے بدلے میرے سرکار“ نظر آرہے ہیں۔ انہیں اب یہ گماں لاحق ہوا نظر آرہا ہے کہ وہ خود کو بتدریج ایسی ”باوقار اور غیر جانبدار“ تصور ہوتی شخصیت کا مرتبہ دلوا سکتے ہیں جو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے موجودہ پاکستان میں ”ثالث“ کا کردار ادا کرے اور ملک کو مزید ہیجان اور خلفشار سے محفوظ بنائے۔
خود کو ”باوقار“ ثابت کرنے کی کاوشوں میں مصروف عارف علوی مگر گزرے جمعرات کی شام تاریخی شرمساری سے دو چار رہے۔ان کی مادر جماعت یعنی تحریک انصاف سے وابستہ سینیٹروں نے ان کے خطاب کا ”بائیکاٹ“ کیا۔ جس ”مقننہ“کے نئے پارلیمانی سال کا آغاز کرنے وہ ایوان میں آئے وہاںوفاقی حکومت کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ان پر آوازے کسے۔ عارف علوی کمال ڈھٹائی سے پرامٹرپر نظر جمائیں اپنے خطاب کو طولانی بناتے چلے گئے۔ ان کی آدھی تقریرکے بعد ایوان میں فقط پندرہ اراکین اپنی نشستوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے گپ بازی میں مصروف رہے۔
صدر کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سننے کے لئے اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ان سے مختص گیلری مہمانوں سے بھری ہوئی تھی۔سفارت کار اپنے جذبات چھپانے کے ماہر ہوتے ہیں۔عارف علوی کے خطاب کے دوران ان کی اکثریت مگر اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے مضحکہ خیز تماشے کی بابت اپنے جذبات چھپانہیں پائی۔ انکے چہرے کامل اکتاہٹ اور بیزاری کا اظہار تھے۔ علوی صاحب نے مگر انگریزی محاورے والی جلد کو مزید ”سخت“ (Thick) بنا رکھا ہے۔ ”ثالث“ کا رتبہ حاصل کرنے کو بے تاب نظر آ رہے ہیں۔
خود کو ”باوقار ثالث“ کا مقام دلوانے کی خاطر ہی انہوں نے ہماری ایک بہت ہی محنتی اور رپورٹر سے معروف ٹی وی اینکر ہوئی عاصمہ شیرازی کو ایک انٹرویو بھی دیا ہے۔ رپورٹر کی مہارت کو ہوشیاری سے بروئے کار لاتے ہوئے عاصمہ نے علوی صاحب کی زبان سے ”سائفر کہانی“ کا کھوکھلا پن عیاں کروادیا۔ عمران خان صاحب کے مخالف اس کی بابت بہت شاداں محسوس کررہے ہیں۔ ”سائفر کہانی“ کے ضمن میں علوی صاحب کے ادا کردہ جملے سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں۔
سیاست کے سنجیدہ طالب علموں کے لئے تاہم صدر عارف علوی کی عاصمہ شیرازی کے انٹرویو ہی کے دوران بیان کردہ یہ خواہش تھی کہ آرمی چیف کی تعیناتی ”مشاورت“ کی متمنی ہے۔ صدر مملکت یا وزیر اعظم کا انٹرویو کرتے ہوئے چند آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا صحافیانہ مجبوری ہے۔عاصمہ نے یہ تقاضہ بھلے انداز میں نبھایا۔ ”مشاورت“‘ کی تجویز کی بابت اپنے مہمان کو شرمندہ وپشیمان کرنے والے سوالات اٹھانے سے گریز کیا۔عارف علوی کی شاطرانہ چال اس کے باوجود بے نقاب ہوگئی۔
”مشاورت“ کی ”عاجزانہ“ انداز میں تجویز پیش کرتے ہوئے ہمارے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے صدر عارف علوی نے درحقیقت تحریری طورپر لکھی اس شق کو غیر متعلق بنانے کی کوشش کی جو منتخب وزیر اعظم کو آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے واضح انداز میں کامل اختیار فراہم کرتی ہے۔”مشاورت“ کے بہانے درحقیقت وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے وقت ان کے قائد عمرا ن خان صاحب کی ترجیح کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔ پہلی نظر میں عارف علوی کی بیان کردہ خواہش معصوم اور نیک نیتی پر مبنی نظر آئے گی۔ اس پر عملدرآمد مگر ہمارے تحریری آئین کو طویل المدت تناظر میں عدم استحکام کی جانب دھکیلنا شروع ہو جائے گا۔
”مشاورت“ کی بات چل نکلی تو کل کلاں چند سیاسی جماعتیں یکسو ہو کر یہ مطالبہ بھی کرنا شروع ہو جائیں گی کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل وزیر اعظم پارلیمان کی خصوصی طورپر بنائی ایک کمیٹی سے بھی ”مشاورت“ کے لئے رجوع کریں۔ ان کی خواہش کو تھوڑی پذیرائی مل گئی تو بالآخر یہ مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل وزارت دفاع کی جانب سے بھیجی جو سمری آئے اس میں شامل نام مذکورہ کمیٹی کے روبرو بھی پیش ہوں۔ پاکستان کو مزید ہیجان اور خلفشار سے بچانے کے لئے لہٰذا لازمی ہے کہ ”مشاورت“ کی تجویز کو فی الفور شدت سے رد کر دیا جائے۔
افواج پاکستان میں افسروں کی ترقی کا عمل کئی چھلنیوں سے گزرتا ہے۔ ان سے گزرے تین سے پانچ سینئر ترین جنرل ہی ممکنہ آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے تیار ہوئی سمری میں شامل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم اس میں سے کسی ایک ہی کو منتخب کر سکتا ہے۔ہماری تاریخ یہ بات بھی ثابت کر چکی ہے کہ تعیناتی کے بعد کوئی بھی آرمی چیف تعینات کرنے والے کا ”احسان مند“ محسوس نہیں کرتا۔ اس کے ادارے کی اجتماعی سوچ ہی اس کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کو خدارا ویسے ہی برقرار رہنے دیں جو ہمارے تحریری آئین نے طے کر رکھا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر