نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے مستقل بدخواہ کو بھی مشکل میں گرفتار دیکھتے ہوئے مجھے ’’اپ پتہ چلا‘‘ والے طنزیہ فقرے اچھالنے کی عادت نہیں۔وجہ اس کی ہرگز یہ نہیں کہ مزاجاََ ’’صوفی‘‘ ہوں۔عام سا انسان ہوں جسے زندگی کی چند راحتوں کے بغیر جینا محال محسوس ہوتا ہے۔’’صحافت‘‘ کی ’’اوقات‘‘ یہ پیشہ بہت اشتیاق سے اختیار کرنے کے محض چار سال بعد ہی جان لی تھی۔ 1979ء کا آغاز ہوا تو جنرل ضیاء کے طویل المدتی ارادوں کی بابت لکھے ایک مضمون کی وجہ سے بے روزگار ہوگیا تھا۔اس کے بعد کئی برسوں تک کوئی صحافتی ادارہ مجھ سے پروف ریڈنگ کروانے کو بھی تیار نہیں تھا۔ کئی پرانے شناسا سرِ راہ مل جاتے تو کنی کترانے کی کاوش میں مبتلا نظر آتے۔انہیں غالباََ یہ فکر لاحق ہوتی کہ میں ان سے ’’اُدھار‘‘ کے علاوہ بھی سادہ پوشی برقرار رکھنے کے لئے کوئی ٹھوس مدد نہ طلب کرلوں۔ برسوں کی خواری کے بعد بالآخر 1982ء میں اسلام آباد سے شروع ہوئے ’’دی مسلم‘‘ اخبار میں نوکری ملی۔اخبار ان دنوں پریس میں چھپنے سے قبل اطلاعات کے محکمے میں بھیجے جاتے تھے۔وہاں بیٹھے ’’ایڈیٹر‘‘ فیصلہ کرتے کہ کیا چھپے گا اور کیا نہیں۔
’’سنسر‘‘ کو غچہ دینے کے لئے میں استعاروں کی اہمیت سے آگاہ ہونا شروع ہوا۔’’تخریبی‘‘ خیالات ان میں لپیٹنے کی کوشش کرتا۔بسااوقات وہ سنسروالوں کو سمجھ ہی نہ آتے۔ وہ چھپ جاتے تو سارا دن اپنا ’’دائو‘‘ لگ جانے کی سرمستی میں گزار دیتا۔رواں صدی کا آغاز ہوا تو ہمارے ہاں بہت دھوم دھام سے الیکٹرانک میڈیا بھی متعارف ہوگیا۔ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے پیغام رسانی کی جو گرائمر ہے مجھے بچپن ہی سے تھوڑا سمجھ آنا شروع ہوگئی تھی۔اپنے تجربے کے باوجود ’’پرنٹ میڈیا‘‘ تک ہی محدود رہنے کو ترجیح دی۔مصررہا کہ الیکٹرانک میڈیا آپ کو صحافی نہیں رہنے دیتا’’سٹار‘‘ بنادیتا ہے۔’’سٹار‘‘ بننے کی مجھے خواہش نہیں تھی۔
ٹی وی چینل مگر پرنٹ کے مقابلے میں بھاری بھر کم تنخواہیں دے رہے تھے۔ نوکرپیشہ ذہن کب تک اڑی دکھاتا۔بالآخر 2007ء میں چہرے پر سرخی پائوڈر لگاکر ایئرکنڈیشنڈسٹوڈیوز میں سوٹ ٹائی سمیت بیٹھنا شروع ہوگیا۔ٹی وی سکرین کی چکاچوند اور Reachنے لیکن ہمارے کئی اینکروں کو اس گماں میں مبتلا کردیا کہ وہ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں اپنے بھاشنوں کے ذریعے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔میں نہایت عاجزی سے اپنے ساتھیوں کو سمجھاتا رہا کہ اقتدار کے سفاک کھیل میں ہم صحافی آپس میں دست وگریبان ہوئے فریقین میں سے کسی ایک کے چہیتے مہرے ہی بن سکتے ہیں اور ’’مہرے‘‘ عموماََ پٹوائے جاتے ہیں۔ ’’بادشاہ‘‘ کو اقتدار کی بساط پر محض ’’مات‘‘ ہوتی ہے۔ عدلیہ بحالی کے لئے چلی تحریک کے ولولہ خیز ایام کے دوران تاہم میری ’’احتیاط‘‘ کا مشورہ دیتی گفتگو ’’بزدلی‘‘ شمار ہونا شروع ہوگئی۔ میرے ساتھی نہایت فخر سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ سنسر کی کڑی نگاہ تلے اُبھرے مجھ جیسے صحافی کو اندازہ ہی نہیں ہوپارہا کہ ٹی وی صحافت کی وجہ سے پاکستان کتنا ’’بدل‘‘ گیا ہے۔حکمران اشرافیہ کو اس نے ’’وختے‘‘ میں ڈال رکھا ہے۔نومبر2007ء میں لیکن جنرل مشرف نے ایمرجنسی -پلس لگاتے ہوئے میرے خدشات کو تقویت فراہم کردی۔2008ء کے بعد ’’اصل جمہوریت‘‘ لوٹ آئی۔ٹی وی سکرینیں دوبارہ ’’گجنا وجنا‘‘ شروع ہوگئیں۔ میں اس کے باوجود مصر رہا کہ ’’بحال‘‘ ہوئی یہ ’’رونق‘‘ بھی عارضی ہے۔
بتدریج ہم 2014ء میں داخل ہوگئے۔معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوا تو صحافتی ادارے بھی کسی ایک فریق کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونا شروع ہوگئے۔ Ratingsیا ناظرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنی جانب متوجہ رکھنا صحافیوں کے جنون میں بدلنا شروع ہوگیا۔زیادہ سے زیادہ Eyeballsکی ہوس نے ٹی وی اداروں کو بھی خالصتاََ پیشہ وارانہ مسابقت کی وجہ سے ایک دوسرے کا دشمن بنانا شروع کردیا۔ خود کو حب الوطنی کا اجارہ دار اور دوسروں کو ’’غدار‘‘ پکارنے کی بدترین روایت متعارف ہوگئی۔
دریں اثناء ہماری ریاست کے دائمی اداروں کو بھی اپنی ترجیحات کی اہمیت کا شدت سے احساس ہونا شروع ہوگیا۔ ان کی طے کردہ ترجیحات کی بابت دیانت دارانہ سوالات اٹھانے کی گنجائش اس کے بعد بتدریج معدوم ہونا شروع ہوگئی۔چند صحافتی ادارے نہایت لگن کے ساتھ ان کی ترجیحات اجاگر کرنے کو بے چین ہوگئے۔ ان کی بے چینی نے دیگر معاصروں کو راندئہ درگاہ بنانا شروع کردیا۔ وقت مگر یکساں نہیں رہتا۔اس کے بدلنے کے ساتھ حکمران اشرافیہ کی ترجیحات و’’اقدار‘‘ بھی بدل جاتی ہیں۔ اکتوبر 2021ء سے ہمارے ہاں بھی ایسے ہی عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ماضی کے ’’محبان وطن‘‘ اس کی وجہ سے آج ’’غدار‘‘ شمار ہورہے ہیں۔
جو ’’چراغ‘ ‘ ماضی میں چلائی آندھی کی وجہ سے بجھ گئے تھے اب دوبارہ روشن ہورہے ہیں۔اب کی بار جو تندہوا چلی ہے اس کی زد میں آئے چراغ ’’دوسرے‘‘ ہیں۔ذاتی طورپر نہایت خلوص سے میں انہیں بھی روشن دیکھنا چاہتا ہوں۔بلھے شاہ کا بتایا ’’براحال‘‘ مگر شروع ہوچکا ہے۔ایسے عالم میں عام افراد کو ’’اپنے بچنے کی فکر کر چھٹ پٹ‘‘ لاحق ہوجاتی ہے۔میں بھی گومگو کے عالم میں ہوں۔ہفتے کے پانچ دن ہر صبح یہ کالم لکھنے کی عاد ت ہے۔اسے نبھانے کو آج کا یہ کالم بھی گھسیٹ ڈالا ہے۔غالبؔ کو ’’دامِ شنیدن‘‘ کا عمر بھر خوف رہا۔اسی باعث جنون میں ’’بک رہا ہوں…‘‘کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی خواہش کا اظہار کرتے کہ ’’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘‘۔ میں یہ دُعا بھی نہیں مانگ سکتا۔ یہ کالم چھپ گیا تو اسے جمعرات کی صبح ٹویٹر اور فیس بک پر پوسٹ کروں گا۔ اس کے بعد خواہش ہوگی کہ اسے زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئرز ملیں۔وہ نہ ملے تو دن ادا س گزرے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر