مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسلم لیگ نواز ‘مریم نواز’ کو پنجاب کا صدر بنانے جارہی ہے یا مرکزی صدر؟||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ ڈان کی آفیشل ویب سائٹ پر اُن کے سینئر اسٹاف رپورٹر جو عمومی طور پر دفاعی امور بارے رپورٹنگ کرتے ہیں باقر سجاد نے مسلم لیگ کے سینئر رہنماؤں سے بات چیت کرنے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے لندن میں مقیم قائد میاں محمد نواز شریف کا پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں شکست کا سبب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کرنے کا نتیجہ ہے – اٌن کے خیال میں مسلم لیگ نواز کو ‘مفاہمت’ کی پالیسی ترک کر دینی چاہیے اور اینٹی اسٹبلشمنٹ موقف کے ساتھ واپس آنا چاہیے –
باقر سجاد نے میاں نواز شریف کے ترجمان سابق گورنر محمد زبیر عمر سے بات چیت کا حوالہ دیا جنھوں نے یہ کہا کہ اُن کی پارٹی کو اسٹبلشمنٹ مسلسل دیوار سے لگانے میں مصروف ہے اور مفاہمت کا راستا ترک کرنا ہوگا – انھوں نے تصدیق کی کہ نواز شریف پارٹی کے اندر تنظیمی بدلاؤ لانے والے ہیں جبکہ مریم نواز شریف کو بھی جلد ہی موجودہ عہدے سے ہٹ کر اہم پوزیشن دی جائے گی –
رپورٹر نے یہ بھی کہا ہے کہ کے پی کی مسلم لیگ نواز کی تنظیم نے شہباز شریف پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے کے پی کے مولانا فضل الرحمان کو ٹھیکے پر دے دیا ہے –
ڈیلی ڈان سمیت پاکستان کے مین سٹریم میڈیا کے کئی اور گروپوں کے ایسے رپورٹرز، تجزیہ نگار، اینکرز، کالم نگار جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے اُن کا تعلق براہ راست مریم کی نگرانی میں قائم کردہ میڈیا سیل سے ہے اور وہ نواز شریف سے بھی قریب ہیں، وہ مارچ میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے لیکر اب تک جتنے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سے آخری واقعہ پنجاب میں ضمنی انتخابات میں شکت بھی شامل ہے کی زمہ داری مسلم لیگ نواز کے مرکزی صدر شہباز شریف اور صوبائی صدر پنجاب حمزہ شہباز شریف پر ڈالی جارہی ہے –
رپورٹ کے مطابق میاں محمد نواز شریف مریم نواز کو اب پارٹی تنظیم میں پہلے سے زیادہ اہم عہدہ دیا جارہا ہے – وہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز کی مرکزی نائب صدر ہیں – اس سے اہم عہدہ یا تو مرکزی صدارت ہے جس پر وزیراعظم شہباز شریف فائز ہیں یا پھر مسلم لیگ نواز پنجاب کی صدارت ہے جو حمزہ شہباز شریف کے پاس ہے –
اس وقت مسلم لیگ نواز کے شہباز شریف، پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کی پی پی پی کے صدر آصف زرداری سے گہری ہم آہنگی دکھائی دے رہی ہے – اور شہباز شریف کے ساتھ اتحادیوں کا اتفاق ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی سطح پر انھیں جی ایچ کیو، نیول ہیڈ کوارٹر، فضائیہ ہیڈ کوارٹر، یہاں تک کہ آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر سے زیادہ مسائل کا سامنا نہیں ہے بلکہ سب سے بڑی مشکلات انھیں عدالتی اسٹبلشمنٹ سے ہیں –
اور دوسرا بڑا خطرہ عمران خان کو سپورٹ کرنے والے جرنیلی ٹولے سے ہے جس کی مکمل سرپرستی پشاور سے ہورہی ہے-
موجودہ حکومتی اتحاد ایک طرف تو کے پی کے میں عمران کو سپورٹ کرنے والے جرنیلی ٹولے کی جانب سے طالبانائزشن کو پھیلانے اور ان کو اپنی پراکسی کے تحت اندرون ملک سودے کار چِپ کے طور پر استعمال کرنے کی کوششوں کو روکنا چاہتا ہے- وہ باجوہ کی قیادت میں کھڑے فوجی جرنیلوں کو نومبر میں نئے آرمی چیف کے انتخاب میں مدد فراہم کرنا چاہتے ہیں – وہ جی ایچ کیو کو چاہتے ہیں وہ کے پی کے میں اور خاص طور پر سابق فاٹا میں سیاسی جمہوری پارٹیوں کا راستا روکنے کی جو کوشش فوج کا ایک سیکشن کررہا ہے، اُسے ختم کرے – پی پی پی کے پی کے میں میاں افتخار اور سندھ میں نسرین جلیل کو گورنر بنانے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو دباؤ ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے – وہ
بلوچستان میں پھنسی ہوئی پاکستان آرمی، ایف سی کو پی پی پی مشکل سے نکالنا چاہتی ہے اور بلوچ قوم کا محاصرہ ختم کرانا چاہتی ہے – اور اس نے شہباز شریف سمیت پی ڈی ایم میں شامل اہم سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی پی پی پی سے اتفاق کرتی ہیں –
کیا لندن میں مقیم میاں نواز شریف کو ان حالات کا پتا ہے جس سے اُن کی پارٹی کی قیادت نبرد آزما ہے، ایسے موقعہ پر جب بڑی سیاسی بساط بچھ گئی ہے، ایسے میں اُن کا میاں شہباز شریف کے پر کاٹنا، اور حکومت چھوڑ کر اسٹبلشمنٹ سے لڑنا اور ساتھ ساتھ ایک بار پھر جمہوری طاقتوں کا اتحاد ختم ہونا، کیا نیک فال ہوگی؟
کیا عجب زمانہ ہے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو ایک طرف پی ٹی آئی اسٹبلشمنٹ اور عدالتی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے ہمدردوں کی مدد سے نکال باہر کرنے کی کوشش کررہا ہے – اور دوسری طرف نواز لیگ کے عقاب نواز شریف کے زریعے شہباز و حمزہ کو غیر موثر بنانا چاہتے ہیں –
کیا نواز شریف ایک بار پھر وہی غلطی دوہرانے جارہے ہیں جو انھوں نے معاشی ترقی کی رفتار میں نے لانگ مارچ کو استعفوں سے مشروط کرکے دی تھی – وہ پاکستان کے سب سے بڑے سیاسی اتحاد کا شیرازہ بکھیرتے دیکھنا چاہتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: