مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ نیوٹرل کیا ہوئے۔۔۔||عاصمہ شیرازی

اُدھر پنجاب میں سیاسی صورت حال نے نئی کروٹ لی ہے اور پرویز الٰہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے میں عمران خان کے صفحے پر نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں چئیرمین تحریک انصاف کو مزید دھچکا لگ سکتا ہے، اور یہ نئی صف بندی کے اشارے ہیں۔

عاصمہ شیرازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہوا میں بننے والے بگولوں کے ناز ہوا اُٹھائے تو کیونکر؟ پانی کے بُلبلے پائیداری کے لیے لہروں سے مصلحت کریں مگر کیسے؟ ریت مٹی سے سمجھوتہ کرے تو کیوں؟

ثبات کا تقاضا ہے کہ پائیداری ہو اور اُس کے لیے ضروری ہے نظریہ۔۔۔ سیاسی جماعتوں کو بیانیے سے زیادہ نظریے کی ضرورت ہوتی ہے اور نظریہ سوشل میڈیا سے نہیں بنتا۔

تحریک انصاف کا نظریہ جمہوریت ہے، آزادی رائے، انسانی حقوق یا آئین کی سربلندی؟ بدقسمتی سے گذشتہ ساڑھے تین سال میں عملی طور پر اس کا تضاد ہی دیکھا ہے۔

پیر کے دن تحریک انصاف کے اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیے نے باغیانہ رنگ پکڑا اور ہوا کی لہروں پر فوج مخالف پیغام گھر گھر پہنچانے کا بندوبست کیا گیا۔ بیانیے کی بجائے سازش کی صورت فوج کی قیادت کے احکامات تسلیم نہ کرنے پر اکسایا گیا اور یوں فوج کی صفوں میں تقسیم کا الزام بھی تحریک انصاف نے اپنے سر لیا۔

شہباز گل آلہ کار بنے جبکہ سازش کے پیچھے ماسٹر مائنڈ تلاش کیا جا رہا ہے۔ شہباز گل نہ تو سیاسی کارکن ہے اور نہ ہی کسی قسم کی جمہوری جدوجہد کا حصہ۔ فوج بحیثیت ادارہ اس بیان کو ایک منظم سازش کا حصہ سمجھ رہی ہے جبکہ تاثر ہے کہ وہ نیوٹرل کیا ہوئے کہ زمانہ ہی دشمن ہو گیا۔ بہر حال اب تحریک انصاف کے لیے حالات غیر معمولی ہیں۔

دوسری جانب ہوا میں تحلیل ہوتا تحریک انصاف کا بیانیہ بھی خان صاحب کے لیے اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ بازار میں بیچنے کے لیے بہر حال سودا چاہیے اور سودا یہاں نقد چاہیے۔ نقدی بیرونی فنڈنگ کیس میں ہے اور کیس کے لیے فیس اور پھر توشہ خانہ کا سُوٹ کیس۔ غرض تحریک انصاف چاروں طرف سے گھر چُکی ہے۔

کل تک تحریک انصاف جس بیانیے پر کھڑی تھی وہ تھا سازشی خط، امریکہ کی سازش اور بیرونی مداخلت۔ اس سب میں میڈیا مینجمنٹ کا جس قدر خیال رکھا گیا وہ نظریے سے کہیں زیادہ تھا۔ ایک ماہ قبل تک لہرایا گیا امریکی خط امریکی سفیر کی محض چھتیس گاڑیوں کی نذر ہوا۔ اور اب یہ بغاوت کہانی خود تحریک انصاف کے حامیوں کو بھی بیک فُٹ پر لے گئی ہے۔

اُدھر پنجاب میں سیاسی صورت حال نے نئی کروٹ لی ہے اور پرویز الٰہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے میں عمران خان کے صفحے پر نہیں ہیں۔ آنے والے دنوں میں چئیرمین تحریک انصاف کو مزید دھچکا لگ سکتا ہے، اور یہ نئی صف بندی کے اشارے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی رہنے کا فیصلہ کر چُکی ہے تاہم اس فیصلے کے بعد سے ایک طرف قوم تقسیم کرنے کی سازش کا سامنا ہے تو دوسری جانب سنگین معاشی بحران۔۔ اس دوران ریاست کو کئی اہم فیصلے کرنا تھے سو وہ ہو گئے۔ خدشہ تھا کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت برقرار رہتی تو پاکستان جون میں سری لنکا جیسی صورت حال میں جا چکا ہوتا۔ ملک کی بقاء اور ریاست کے دفاع کے لئے اسٹبلشمنٹ غیر سیاسی ہوئی تو سیاسی جماعتوں نے بھی سیاسی مفاد کی پرواہ نہیں کی۔

اب کچھ مزید خطرات ریاست کو درپیش ہیں۔ گذشتہ تقریباً دس سال سے خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف حکومت کے دوران سوات میں طالبان کے ری گروپ ہونے کی اطلاعات تشویشناک ہیں اور پی ٹی آئی حکومت کی رٹ پر سوال اُٹھا رہی ہیں۔ ایک کے بعد کئی ایک مسائل اور کمزور معیشت اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہیں جن کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ کیا ریاست اس کے لیے تیار ہے۔

عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم بھی پڑھیے

 بشکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام

%d bloggers like this: