نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے اقبالؔ نے ’’مرگ مفاجات‘‘ کو ’’جرم ضعیفی‘‘ کی سزا ٹھہرایا تھا۔ اس ضمن میں ان کے لکھے مصرعے کو میں نے ہمیشہ اسلامی سلطنتوں کے زوال تک ہی مختص تصور کیا۔گزشتہ چند دنوں سے مگر بہت شدت سے یہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں کہ مذکورہ مصرعہ درحقیقت میری ذات کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔
اپنی عمر کے اس حصے میں یقینا پہنچ چکا ہوں جہاں انسان کو تقریباََ گوشہ نشین ہوکر ’’وقت رخصت‘‘ کا انتظار کرنا چاہیے۔ ذات کا مگر رپورٹر رہا ہوں۔حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھنے کو مجبور محسوس کرتا ہوں۔رزق کمانے کے لئے ہفتے کے پانچ دن یہ کالم بھی لکھنا ہوتاہے۔ اسی باعث کوشش ہوتی ہے کہ ان دنوں فیلڈ میں جو رپورٹر متحرک ہیں ان سے مسلسل رابطے میں رہوں۔ میری خوش بختی کہ نوجوان صحافیوں کی معقول تعداد میری خواہش کو خود پر بوجھ تصور نہیں کرتی۔کہیں محفل جمائے بیٹھے ہوں تو بہت چائو سے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھاکر وہاں لے جاتے ہیں۔مجھے جھکی پن کو اُکساتے ہیں اور کبھی کبھار ڈانٹ ڈپٹ کھانے کے باوجود رات گئے گھر واپس پہنچادیتے ہیں۔
خود کو عقل کل تصور کرنے کی علت مجھے لاحق نہیں۔ہمیشہ اس جستجو میں مبتلا رہا کہ وہ جسے فلسفے کی زبان میں ’’عصر حاضر‘‘ کہا جاتا ہے اس کے تقاضوں کو سمجھا جائے۔اس جستجو کی بدولت میں اپنے کئی ہم عصر صحافیوں کے برعکس 1990ء کی دہائی ہی سے انٹرنیٹ کے متعارف کر دہ رحجانات سے آگاہ ہونا شروع ہوگیا تھا۔اپنی زندگی میں پہلا لیپ ٹاپ میں نے 1997ء میں خریدا تھا۔ اس کے استعمال سے میں نے Chatنامی شے بھی دریافت کرلی۔فیس بک اور ٹویٹر جوں ہی متعارف ہوئے انہیں بذات خود استعمال کرنا بھی شروع ہوگیا۔انسٹاگرام اور ٹک ٹاک مگر مجھے پسند نہیں آئے۔ یوٹیوب پر اپنا چینل بنانے سے اس لئے بھی گریز کرتا ہوں کہ مجھے اس کے ذریعے اپنے خیالات کو خود ہی ریکارڈ اور ایڈٹ کرنا دشوار محسوس ہوتا ہے۔جوانی کے کئی برس ٹی وی ڈرامے لکھنے اور انہیں پروڈیوس کرنے میں مدد دینے میں صرف کئے ہیں۔اس کی وجہ سے کیمرے کے روبرو آنے کے بجائے اس کے پیچھے کھڑے ہوکر ’’سین‘‘ تیار کرنے کو ترجیح دیتا ہوں۔
ابلاغ کے جدید ترین ذرائع سے کماحقہ آگاہی کے باوجود مجھے اپنے نوجوان ساتھیوں سے اکثر یہ گلہ سننے کو ملتا ہے کہ عمران خان صاحب نے مذکورہ ذرائع کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے ہماری نوجوان نسل کا ذہن جس انداز میں بدلا ہے میں اسے سمجھ نہیں پارہا۔وطن عزیز میں اس کی وجہ سے ’’پہلی بار‘‘ ہماری نوجوان نسل حکمران اشرافیہ کے روبرو ڈٹ کر کھڑی ہوگئی ہے۔یہ چلن جاری رہا تو پاکستان میں ’’جب راج کرے گی خلق خدا‘‘ کا خواب جلد ہی عملی صورت اختیار کرلے گا۔1950ء کی دہائی سے ’’رعایا‘‘ کا مقدر طے کرنے والے ’’سلطانی ادارے‘‘ اب بے بس ہوئے نظر آرہے ہیں۔ نوجوان دوستوں کے خیالات سن کر میں فقط ’’تیرے منہ میں گھی شکر‘‘ کی دُعا مانگنے تک محدود رہتا ہوں۔
میرے بچپن میں ہمارے گھر ’’امروز‘‘ اخبار آیا کرتا تھا۔فیض احمد فیضؔ اس کے بنیادی مدیروں میں شامل تھے۔مولانا چراغ حسن حسرت کی نگرانی میں یہ لوگوں کو بآسانی سمجھ آنے والی زبان میں مقامی اور عالمی خبروں سے آگاہ رکھتا تھا۔مذکورہ اخبار میں روزانہ ادارتی صفحات پر ایک کالم بھی چھپتا تھا۔ غالباََ اس کا نام ’’پس منظر‘‘ تھا۔اس کالم میں اہم ترین عالمی واقعات کے باعث ٹھہرے اسباب سمجھانے کی کوشش ہوتی تھی۔اسے پڑھتے ہوئے میں بتدریج پاکستان کو دنیا سے کٹا ہوا جزیرہ تصور کرنے کے قابل نہ رہا۔ ہمارے ہاں جب کسی بھی نوع کی ’’عوامی تحاریک‘‘ چلیں تو میں ان کا تقابل دنیا کے ان ممالک میں چلی تحاریک سے کرنے کو مچل جاتا ہوں جن کے معروضی حالات ہمارے جیسے ہیں۔
سوشل میڈیا کی بدولت آج سے تقریباََ دس برس قبل مصر میں ’’التحریراسکوائر‘‘ برپا ہواتھا۔اتفاق سے میں نے اس ملک میں اس صدی کے آغاز میں تقریباََ دو ہفتے بھی گزارے تھے۔وہاں کے آمرانہ نظام کی دہشت کو برسرزمین محسوس کیا۔’’التحریر اسکوائر‘‘ جما تو مصرکی بابت کئی کتابیں اور اخبارات میں چھپے مضامین بھی بہت غور سے پڑھنا شروع ہوگیا۔ ’’التحریر سکوائر‘‘ کی وجہ سے ’’عرب بہار‘‘ کی نوید بھی کئی برسوں تک میڈیا پر حاوی رہی۔آغاز اس کا تیونس سے ہوا تھا۔
مصر کی ’’بہار‘‘ مگر بالآخر حسنی مبارک کی جگہ اس ملک کی عسکری اشرافیہ ہی سے ابھرے ایک اور ’’دیدہ ور‘‘ السیسی کو ’’نیا فرعون‘‘ بنانے کاباعث ہوئی۔ تیونس بھی ان دنوں ایک ایسے صدر کے رحم وکرم پر ہے جو ’’انتشار‘‘کے خاتمے کا عہد کئے ہوئے ایک ’’نیا نظام‘‘ متعارف کروانے کو مضطرب ہے۔مصر کے ہمسایہ شام میں ’’عرب بہار‘‘ نے وہاں کے بشارالاسد کا توکچھ نہیں بگاڑا۔ وہ ملک مگر خانہ جنگی کی وجہ سے کئی ’’خودمختار‘‘ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے۔ ان ٹکڑوں پر روس کے علاوہ ترکی بھی اپنا حتمی کنٹرول قائم کرنا چاہ رہا ہے۔اس کے علاوہ ’’داعش‘‘ بھی ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آرہی۔
اپنے نوجوان دوستوں کے روبرو نہایت خلوص سے جب مصر،شام اور تیونس کی مثالیں رکھتا ہوں تو ان میں سے چند کوئی واضح جواب دینے کے بجائے نہایت احترام سے فقط یہ جواب دیتے ہیں کہ ’’ماضی کے حقائق‘‘ میں مسلسل گرفتار رہنے کی وجہ سے میں پاکستان کے ’’نئے حقائق‘‘ دیکھنے سے معذور ہوچکا ہوں۔
بخدا میں ان کی سوچ کا ہرگز بُرا نہیں مانتا۔اس سوال کا جواب مگر اب بھی جاننے کو بے چین ہوں کہ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال مصر کے شہری متوسط طبقے کی اکثریت کے خواب کو عملی صورت کیوں نہ دے سکا۔ اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمارے ہی خطے کا ایک اور ملک برما بھی ہے۔وہاں کئی دہائیوں سے جمہوری نظام کی تحریک چلی۔آنگ سان سوچی اس کی رہنما تھی۔ اسے نوبل پرائز بھی ملا۔ وہ بالآخر کئی سالوں تک حکمرانی میں شریک بھی رہی۔ان دنوں مگر دوبارہ نظر بند ہے اور برما ان ہی قوتوں کے جابرانہ کنٹرول میں جاچکا ہے جو 1960ء کی دہائی سے اس ملک پر بے رحمانہ انداز میں چھائی ہوئی ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ ’’کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر