نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے چند پرانے اور بے تکلف دوستوں سے میری بھی شناسائی ہے۔ ان کے ہاں کوئی بڑا کھانا ہو تو مجھ مسکین کو بھی یاد کر لیتے ہیں۔ ان کی بدولت مفتاح اسماعیل کو کافی جان چکا ہوں۔مزے کے آدمی ہیں۔رعونت چھوکر ہی نہیں گزری۔ دوسروں سے زیادہ اپنا مذاق خود اڑاتے ہیں۔
عمران حکومت کے دوران احتساب بیورو کی پکڑ میں آئے تھے۔ شاہد خاقان عباسی انہیں پیغام بھجواتے رہے کہ سابق وزیر اعظم کو ہر فیصلے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے جان چھڑا لیں۔ ایک خوش حال کاروباری گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی مفتاح مگر اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے اور بالآخر سابق وزیر اعظم کے ہمراہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی ان کوٹھڑیوں میں ذلت واذیت برداشت کی جو قتل جیسے سنگین الزام میں سزا یافتہ ہوئے مجرموں کے لئے مختص ہوتی ہیں۔اس دور کو بھی لیکن وہ لطیفہ کی صورت یاد رکھتے ہیں۔مظلومیت کی داستان گھڑتے ہوئے ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش نہیں کرتے۔
میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں کہ مفتاح اسماعیل مسلم لیگ (نون) کے اس گروہ میں شامل تھے جو عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا حامی نہیں تھا۔ اس میں شامل افراد یہ بھی سوچتے تھے کہ اگر سابق وزیر اعظم سے جند چھڑانا لازمی ہوچکا ہے تو ان کی فراغت کے بعد حکومت سنبھالنے کے بجائے نئے انتخاب کی جانب بڑھا جائے۔ پاکستان جس اقتصادی گرداب میں گھرچکا ہے اس سے نبردآزما ہونے کے لئے ”فریش مینڈیٹ“کے تحت قائم ہوئی حکومت ہی اقتدار سنبھالنے کے بعد ”سخت اور غیر مقبول“ فیصلے لینے کی جرات دکھاسکتی ہے۔نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کی اکثریت مگر اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ عمران خان صاحب کی جگہ شہباز شریف صاحب نے لہٰذا وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیا اور مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ تعینات کر دیا۔
اقتصادی امور کا مجھے ککھ علم نہیں۔ مفتاح اسماعیل نے مگر امریکہ کی ایک یونیورسٹی سے علم معاشیات میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔روایتی ماہرین معیشت کی طرح اگرچہ و ہ بھاری بھر کم اصطلاحات کے استعمال سے اس موضوع کو زیر بحث نہیں لاتے۔ معاشی حقائق کو ٹھوس ذاتی تجربات کے حوالے سے سادہ اورآسان زبان میں بیان کرنے کے عادی ہیں۔سیٹھوں کی ترجیحات کا انہیں مجھ جیسے قلم گھسیٹ سے کہیں زیادہ علم ہے۔ سیٹھ بلکہ ان کی اصل ”برادری“ ہیں۔
نام نہاد ”بے حد آزاد اور باخبر“ میڈیا کے اس موسم میں بھی عوام کی اکثریت اس حقیقت سے لاعلم ہے کہ عمران خان صاحب نے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد اپنی عوامی حمایت کا جو ”جلوہ“ دکھایا اس سے ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں براجمان چند اہم افراد بھی گھبراگئے تھے۔ان میں یہ سوچ ابھری کہ عمران خان صاحب کو رام کرنے کے لئے نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائے۔یہ سوچ ”پیغام“ کی صورت وزیر اعظم تک پہنچی تو وہ گھبراگئے۔ انہیں خبر تھی کہ رواں مالی سال کے لئے جو بجٹ تیار کرنا پڑے گا وہ عوام کی اکثریت کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔ بجٹ منظور کروا لینے کے فوری بعد مسلم لیگ (نون) اگر انتخاب میں گئی تو اپنے روایتی ”ووٹ بینک“ سے محرو م ہوتی نظر آئے گی۔سوال اس سوچ کے بعد یہ بھی اٹھا کہ موجودہ حکومت نیا بجٹ تیار کرنے کی اذیت کیوں اٹھائے۔ اسے منظور کروانے میں اپنی توانائی بھی کیوں ضائع کرے۔ گومگو کے اس عالم نے شہباز شریف کو اپنی کابینہ کے سرکردہ اراکین سمیت لندن جانے کو مجبور کیا۔ وہاں ان کے ”قائد“ نے ڈٹے رہنے کا حکم صادر کیا۔
مختصراََ یوں کہہ لیں کہ رواں مالی برس کے لئے جو بجٹ تیار ہوا ہے وہ نواز شریف صاحب کی ”اجازت“ سے تیار ہوا ہے۔یہ ”اجازت“ دیتے ہوئے ”قائد“ نے اس امر کو بھی یقینی تصور کیا کہ موجودہ حکومت کو قومی اسمبلی کی بقیہ مدت ختم ہونے تک آئندہ برس کے اگست تک برقرار رکھا جائے گا۔شاید اس دوران ”وقت اچھا بھی آئے گا ناصر“ والا ماحول بھی میسر ہوجائے۔
اقتدار کا کھیل مگربہت سفاک ہوتا ہے۔جو بجٹ مفتاح اسماعیل نے قومی اسمبلی کے روبرو رکھا وہ یقینا جان لیوا ہے۔ اس کی بدولت پیٹرول، گیس اوربجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے۔موجودہ حکومت میں شامل دیگر جماعتیں اگر اس بجٹ سے فاصلہ اختیار کریں تو سمجھا جاسکتا ہے۔تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ مسلم لیگ (نون) کے اراکین پارلیمان اور کٹر حامیوں کی اکثریت بھی ”سخت بجٹ“پیش کرنے کا مفتاح اسماعیل کو یک وتنہا ذمہ دار ٹھہرارہی ہے۔ اسی باعث ہر دوسرے دن ”باوثوق ذرائع“ سے ”خبر“ چلوادی جاتی ہے کہ نواز حکومت کے گزشتہ دو ادوار میں معاشی رونق دکھانے والے اسحاق ڈار صاحب وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔ تازہ ترین ”خبر“ اس تناظر میں پیر کے روز روایتی اور سوشل میڈیا پر بینڈ،باجہ،بارات کے ساتھ پھیلائی گئی ہے۔ دعویٰ ہے کہ ڈار صاحب جولائی کے دوسرے ہفتے میں بالآخر وطن لوٹ آئیں گے۔یہاں آمد کے بعد بطور سینیٹر اپنے عہدے کا حلف لیں گے اور مفتاح اسماعیل کی جگہ وزارت خزانہ کا منصب سنبھال لیں گے۔
ڈار صاحب سے سرسری بات ہوئے بھی مجھے دس سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔ ہمارے مابین مگر احترام کا رشتہ برقرار تصور کرتا ہوں۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ وہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں وطن لوٹ رہے ہیں یا نہیں۔ایک بات مگر وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ لوٹ بھی رہے ہیں تو فی الفور وزارت خزانہ کا منصب نہیں سنبھالیں گے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے اور ہمارے ہاں حکومتوں کی آمد ورفت کے ”کلید بردار“ واضح انداز میں خواہش مند ہیں کہ جو بجٹ تیار ہوا ہے اسے ”پٹڑی“ پر چڑھانے کا فریضہ بھی فی الحال مفتاح اسماعیل ہی ادا کریں۔ اس طرح پیغام دیا جائے کہ حکومت جو ”سخت اقدامات“ لے چکی ہے انہیں ہر صورت بروئے کار لایا جائے گا۔مفتاح اسماعیل کی جولائی اور اگست کے درمیان فراغت فقط نئے انتخاب کو یقینی بنانے کا پیغام ہی دے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر