نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی ملک میں خوف وہراس پھیلانے کے لئے سوشل میڈیا کے استعمال کی بابت دنیا بھر میں بہت تحقیق ہوچکی ہے۔فیس بک کے تقریباََ بانی کارکنوں میں سے ایک بلکہ امریکی پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے روبرو پیش ہوئی تھی۔ کئی دنوں تک پھیلے اپنے بیان کے ذریعے اس نے ٹھوس مثالوں اور اعددوشمار کے ذریعے احساس جرم سے رندھی آواز میں اعتراف کیا کہ وہ جس پلیٹ فارم کے لئے کام کرتی تھی اسے کس انداز میں بھارت،سری لنکا اور برما میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔بھارت میں کئی مقامات پر ایسے ہندو-مسلم فسادات خونی صورت اختیار کر گئے جن کی بنیاد فیس بک پر لگائی جھوٹی تصاویر ہی نہیں بلکہ واٹس ایپ کے ذریعے پھیلائی افواہیں اور اشتعال دلاتے پیغامات بھی تھے۔
وطن عزیز میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام فروغ دینے کی روایت یقینا تحریک انصاف نے متعارف کروائی تھی۔ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد عمران خان صاحب اس کے تقریباََ ہر پلیٹ فارم کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ اور ’’میر جعفروں‘‘ کے خلاف غم وغصہ بھڑکائے چلے جارہے ہیں۔ایسی مہارت کو انگریزی میں Message Controlکہا جاتا ہے۔کاش میں اس کا اردو مترادف تلاش کرسکتا۔ ویسے بھی میرا اصل مقصد اصرار کرنا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیغام سازی اور پیغامبری پر اب تحریک انصاف کا اجارہ نہیں رہا۔ مذہبی جذبات مشتعل کرنے میں تحریک لبیک اس سے کہیں زیادہ کامیاب رہی ہے۔مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہوئے لانگ مارچ اور عوامی اجتماعات کو بھی ان کے کارکن سوشل میڈیا کی بدولت پر رونق اور پرجوش بنائے رکھتے ہیں۔پیپلز پارٹی اس ضمن میں پنجابی محاورے والی ’’لسی سامی‘‘ یعنی مسکین جماعت ہے۔نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ ’’جوڑ برابردا‘‘ والا ماحول بنائے ہوئے ہے۔
یہ جماعت اب عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد قائم ہوئی مخلوط حکومت کی سرکردہ شراکت کار ہے۔اس کے وزراء میں مفتاح اسماعیل،شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹیوں کے طالب علم بھی رہے ہیں۔عباسی صاحب خود میں مگن رہنے والے شخص ہیں۔ معاشی معاملات کو ٹی وی سکرینوں پر منطقی انداز میں بیان کرتے ہیں۔جذبات بھڑکانے یا ان سے کھیلنے کے عادی نہیں۔مفتاح اسماعیل اور مصدق ملک مگر گفتار کے ’’غازی‘‘ بھی ہیں۔کسی بھی موضوع کو زیر بحث لاتے ہوئے ’’وہ کہے اور سناکرے کوئی ‘‘والا سماں باندھ دیتے ہیں۔سوشل میڈیا کی کلیدی حرکیات سے بھی غافل نہیں۔
ان دونوں کے ہوتے ہوئے بھی پاکستانی عوام کی اکثریت یہ سمجھنے میں قطعاََ ناکام رہی ہے کہ عمران خان صاحب کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی کونسا ’’جن‘‘ پاکستان پر قابض ہوگیا اور ’’اچانک‘‘ ہمارے ہاں لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے شروع ہوگئے جو تاریخی اعتبار سے ریکارڈ قرار پائے گرمی کے موسم میں ہمیں ’’جہنم برد‘‘ کرتے محسوس ہورہے ہیں۔پیٹرول کی قیمت کو یکمشت ناقابل برداشت حد تک کیوں بڑھانا پڑا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ 60روپے کا جو تباہ کن اضافہ ہوا ہے اس کے بعد بھی چین سے سانس لینے کی مہلت ملے گی یا نہیں۔ ان سوالات کی بابت یہ دونوں وزراء جن سے میرے بے تکلف مراسم بھی ہیں سفاکانہ عدم دلچسپی اختیار کرتے پائے جارہے ہیں۔
تحریک انصاف موجودہ حکومت کی ’’شریک‘‘ یعنی ’’دشمن‘‘ ہے۔اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد اس کا رویہ ’’کھیڈا ں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ والا بھی ہوچکا ہے۔’’شریک‘‘ مگر ایسا رویہ اختیار کریں تو اس کی بابت ماتم کنائی درحقیقت ہارے ہوئے لشکر کی نشاند ہی کرتی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا پر کامل گرفت کی بدولت تحریک انصاف لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہی کہ پاکستان بہت تیزی سے ’’فنانشل ایمرجنسی‘‘ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کے نافذ ہوجانے کے بعد صارفین کی جانب سے بینکوں میں رکھی اشیائ،رقوم اور اہم کاغذات حکومت کے ’’قبضے‘‘ میں چلے جائیں گے۔ جو ڈالر اکائونٹس ہیں انہیں بھی حکومت ’’اپنا‘‘ لے گی۔
ٹھوس حقیقت جبکہ یہ ہے کہ اگر ’’فنانشل ایمرجنسی‘‘ لگ بھی جائے تب بھی حکومت ایسے اقدامات لے نہیں سکتی۔ مسلم لیگ (نون) کی حکومت نے 1998میں بھارت کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے تو اس کے بعد پاکستانیوں کے ڈالر اکائونٹس کو پاکستانی روپے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ سرتاج عزیز صاحب نے بطور وزیر خزانہ کیا تھا۔اس کی پاداش میں خزانہ سے ہٹاکر خارجہ امو ر کے وزیر بنادئیے گئے تھے۔اسحاق ڈار صاحب کو بالآخر ان کی جگہ لینا پڑی۔
مذکورہ ’’تاریخ‘‘ کے تناظر میں ’’فنانشل ایمرجنسی‘‘ کے عنوان تلے ابھرتے امکانات پر مبنی افواہوں نے جنہیں یقینا تحریک انصاف کے انٹرنیٹ مجاہدین نے مہارت سے پھیلایا ہے منگل کے روز ہمارے کاروباری حلقوں میں سراسیمگی پھیلادی۔ڈالر ایک بار پھر آسمان کی آخری حدوں تک پروان کو مچلتا محسوس ہوا۔ اس سے زیادہ خوف وہراس پیٹرول کے صارفین میں پھیلا۔ افواہ پھیلی کہ منگل کی رات اس کی قیمت میں ایک بار پھر ’’شب خون‘‘ دکھتے اضافے کا اعلان ہونے والا ہے۔پاکستان کے ہر شہر میں اس کے بعد پیٹرول پمپوں کے سامنے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی طویل قطاریں لگنا شروع ہوگئیں۔
دگنی حیرت یہ سوچتے ہوئے بھی ہورہی ہے کہ ہمارے بازاروں میں سراسمیگی کا یہ ماحول عین اس روز نظر آیا جب وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزیر ومشیر ہمارے اجارہ دار سیٹھوں اور معاشی ماہرین کے اجتماع سے پورے دن تک پھیلی ’’مشاورت‘‘ میں مصروف تھے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل صاحب نے وہاں اپنے خطاب کے دوران ’’تیسری قطار‘‘ میں بیٹھے چند سیٹھوں کی جانب اشارہ کیا جو نجی جہازوں میں سفر کرتے ہیں ۔ان سے پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کی بابت مسخرہ پن دکھتی شرمساری کا اظہار کیا۔جو کلمات انہوںنے ادا کئے وہ روایتی اور سوشل میڈیا پر عاجلانہ رفتار کیساتھ پھیل گئے اور پیٹرول پمپوں کے باہر قحط کی زد میں آئے ممالک سے مختص افراتفری نمودار ہونا شروع ہوگئی۔مفتاح اسماعیل ایک کامیاب کاروباری شخص ہیں۔وہ مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ زبان سے ادا ہوئے لفظ کی کیا اہمیت ہے اور حکومت کا ’’بھرم‘‘ رکھنے کے لئے احتیاط بھرے الفاظ استعمال کرنا لازمی ہے۔ حکومتوں کو ’’مشورے‘‘ دینے کی مجھے علت لاحق نہیں۔ شہباز شریف صاحب کا دربار ویسے بھی ان دنوں کئی ’’صحافتی نورتنوں‘‘ سے بھرا ہوا ہے۔ پاکستان کا بے حس ولاچار شہری ہوتے ہوئے ان سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ عوام سے روزانہ کی بنیاد پر رابطہ استوار کریں اور انہیں مشکل کی اس گھڑی میں ٹھوس حقائق سے مسلسل آگاہ رکھتے ہوئے امید کی لو جگانے کی کوشش کریں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر