نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میری ’’مفت قیمتی پلاٹ‘‘ کی مچلتی خواہش || نصرت جاوید

یہ سب ہوجانے کے باوجود مگر کئی مہینوں تک میری تصویر سمیت وہ ’’فہرست‘‘ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔عمران خان صاحب کے بے شمار گرویدہ کسی نہ کسی صورت میرا ٹیلی فون نمبر بھی حاصل کرلیتے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کے دن روایتی اور سوشل میڈیا پر جس آڈیو لیک کا چرچا ر ہا میں اصولی بنیادوں پر اسے زیر بحث نہیں لائوں گا۔ چوروں کی طرح دو افراد کے مابین ہوئی گفتگو کو جاسوسی کے جدید ذرائع کے ذریعے اچک کر ان کی یا کسی اور کی تحقیر کے لئے منظر عام پر لانا میں ہر اعتبار سے غیر اخلاقی بلکہ مجرمانہ تصور کرتا ہوں۔برطانیہ میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہونے والا ایک اخبار تھا۔اس کے رپورٹر جاسوسوں سے مختص ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے نامور افراد کی تضحیک کے قابل مواد جمع کیا کرتے تھے۔بالآخر وہاں کا قانونی اور عدالتی نظام متحرک ہوا اور اب اس اخبار کا نام بھی کسی کو یاد نہیں رہا ہے۔ہمارے ہاں اگرچہ ’’سب چلتا ہے‘‘ اور چلتا رہے گا۔

اپنی سوچ کے ایماندارانہ اظہار کے باوجود یہ حقیقت بھی تسلیم کرنے کو مجبور ہوں کہ مذکورہ آڈیو کے منظر عام پر آنے کے عمل نے میرے اندر موجود کمینے پن کو فوری تسکین پہنچائی۔ غالباََ 2014ء کا برس تھا۔عمران خان صاحب کینیڈا سے نمودار ہوئے اپنے ایک روحانی کزن کے ہمراہ اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ میں ان دنوں ’’آج‘‘ ٹی وی کے لئے ایک شو کا میزبان تھا۔ نظر بظاہر آئینی اعتبار سے قائم ہوئی کسی بھی منتخب حکومت کو دھرنوں وغیرہ کے ذریعے بے بس ولاچار بنانے کی سوچ کا حامی نہیں ہوں۔اسی رائے کو اپنے شو میں دلائل کے ساتھ بیان کرتا رہا۔

اپنے روایتی کام میں مصروف تھا کہ ایک روز میرا شو آن ایئر جانے سے چند ہی لمحے قبل میرے صحافی دوست سرل المیڈا کا فون آیا۔اپنی پریشانی چھپانے کے لئے اختیار کردہ طنز بھرے لہجے میں اس نے مجھے آگاہ کیا کہ سوشل میڈیا پر ایک فہرست وائرل ہورہی ہے۔اس فہرست میں ان افراد کے نام شامل ہیں جنہوں نے وطن عزیز میں پراپرٹی کے حتمی اجارہ دار تصور ہوئے ایک سیٹھ سے قیمتی پلاٹس ہی وصول نہیں کئے بلکہ بھاری بھر کم رقوم بھی حاصل کیں جو ایسے بینک اکائونٹ میں جمع ہیں جس کی تفصیلات بھی عیاںکردی گئی ہیں۔ مذکورہ فہرست نظر بظاہر ’’صحافیوں کو خریدنے والے ‘‘ ادارے کے سرکاری دِکھتے لیٹر پیڈ پر درج ہوئی تھی۔سرل کے بعد دیگر خیرخواہوں کی جانب سے بھی ایسے فونوں کا تانتا بندھ گیا۔میرے ساتھی مشتاق منہاس مصررہے کہ میں مبینہ فہرست کا اپنے شو میں ذکر ہی نہ کروں۔

غصے سے میرا ذہن مگر اُبل رہا تھا۔ پروگرام کا آغاز ہوتے ہی میں نے اپنے پروڈیوسر کو مجبور کیا کہ وہ مذکورہ فہرست ٹی وی سکرین پر دکھائے۔ اسے دکھاتے ہوئے میرے نام اور اس کے آگے لکھے پلاٹ نمبر اور اکائونٹ پر فوکس برقرار رکھا جائے۔ فہرست کو سکرین پر جمائے ہوئے میں فریاد کرنا شروع ہوگیا کہ خدارا مجھے اس پلاٹ کا قبضہ دلوایا جائے جس کے حصول کا مجھ پر الزام لگا ہے۔اس کے علاوہ اس بینک کی چیک بک کا تقاضہ بھی کیا جس میں میرے نام بھاری بھر کم رقم منتقل ہوئی ہے۔میری اپنائی ڈھٹائی کے برعکس میرے چند ساتھی جن کے نام بھی اس فہرست میں شامل تھے اپنی ساکھ پر لگائے دھبے کو دھلوانے سپریم کورٹ کے ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے روبرو چلے گئے۔میں ’’ارسلان کے ابو‘‘ سے مگر دیانت داری کی سندحاصل کرنے کو تیار نہیں تھا۔ دریں اثناء جس ادارے پر دریا دل فیاضی کا الزام لگایا گیا تھا اس نے بھی عدالت وعوام کو واضح الفاظ میں بتادیا کہ ان کا لیٹر پیڈ ایک قطعی بے بنیاد کہانی پھیلانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔افتخار چودھری صاحب نے بھی ہمیں بقول منیرؔنیازی ’’شہر میں معتبر‘‘ رہنے کے جواز اپنے ریمارکس کے ذریعے فراہم کردئیے۔

یہ سب ہوجانے کے باوجود مگر کئی مہینوں تک میری تصویر سمیت وہ ’’فہرست‘‘ سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔عمران خان صاحب کے بے شمار گرویدہ کسی نہ کسی صورت میرا ٹیلی فون نمبر بھی حاصل کرلیتے۔رات گئے فون ملاکر ’’بکائو‘‘ ہونے کے طعنے دیتے۔میری بڑی بچی ابھی یونیورسٹی میں داخل ہوئی تھی۔وہ بے چاری کئی ہفتوں تک اپنے دوستوں کو ہمارے گھر بلاکر ہمارے رہن سہن کے حقائق سے آگاہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہی۔ میری بیوی سے اگرچہ کسی کو مذکورہ فہرست زیر بحث لانے کی جرأت نہیں ہوئی۔اس کے خون میں ’’حرام‘‘ سے نفرت اُبلتی  رہتی ہے جس کا ادراک اس کے سرسری شناسائوں کو بھی ہے۔

ربّ کریم عادل بھی ہے اور منصف بھی ہے۔وہ مجھ جیسے گنہگار انسانوں کے بھرم کا حتمی محافظ بھی ہے۔اتوار کے روز جو آڈیو لیک ہوئی اسے پہلی بار سنتے ہوئے میرے کمینے دل کو یقینا خوشی ہوئی۔ کسی ’’ہیرے‘‘ کوتین سے پانچ قراط میں تبدیل کرنے کا تقاضہ اسی ادارے سے ہورہا تھاجو آج سے کئی برس قبل مجھے قیمتی پلاٹ اور بھاری بھر کم رقم ’’رشوت‘‘ کے طورپر فراہم کرتا بتایا گیا تھا۔کمینے جذبات ختم ہوئے تو اچانک ذہن میں یہ خیال کوندا کہ ابدی ’’ستارالعیوب‘‘ نے ایک حوالے سے میرے ساتھ بھی کرم فرمادیا ہے۔اس کرم کی بابت سوچا تو ’’جمال‘‘ کا ’’جلال‘‘ بھی یاد آگیا۔ریڑھ کی ہڈی میں اسے محسوس کرتے ہوئے کپکپاہٹ شروع ہوگئی۔میں بوکھلائے دل کے ساتھ اپنے کمرے سے نکل کر آسمان کی جانب نگاہ اٹھائے شکر کے لمبے سانس لینا شروع ہوگیا۔

اس کیفیت سے گزرنے کے بعد مگر کمینہ دل مچل رہا ہے کہ کاش جو قیمتی پلاٹ لینے کا مجھ پر الزام لگا تھا اس کاقبضہ مجھے نصیب ہوجائے۔عمر کے آخری حصے میں مالی مشکلات سے نبردآزما ہونا دشوار سے دشوار تر ہورہا ہے۔ایسے عالم میں مفت میں ایک قیمتی پلاٹ نصیب ہوجائے تو بقول غالب ’’برا کیا ہے؟‘‘

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author