نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل خوش فہم یہ تسلیم کرنے کو آمادہ ہی نہیں ہورہا کہ پنجاب اسمبلی میں ہفتے کے دن جو دنگا فساد ہوا چودھری شجاعت حسین صاحب اس کی بابت دل ہی دل میں ندامت محسوس نہیں کررہے ہوں گے۔ان کے والد چودھری ظہور الٰہی کے زمانے سے گجرات کے چودھری وضع داری کی علامت شمار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ان کے قتل کے بعد چودھری شجاعت حسین نے پروقار استقلال سے خاندانی روایات برقرار ر کھیں۔کئی دہائیوں کی محنت سے بنایا اور برقرار رکھا بھرم مگر ہفتے کے دن دھماکے سے اُڑگیا ہے۔
چودھری ظہور الٰہی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے شدید ترین مخالفوں میں شامل تھے۔بھٹو صاحب نے انہیں گرفتار کروانے کے بعد بلوچستان کے دور دراز علاقے کی ایک جیل میں بند کردیا۔نواب اکبر بگتی ان دنوں اس صوبے کے گورنر تھے۔انہوں نے ترش الفاظ میں بھٹو صاحب کو آگاہ کیا وہ اپنی زمین پر چودھری صاحب کو معمولی خراش بھی نہیں لگنے دیں گے۔ تاریخ کا جبر مگر یہ ہوا کہ چودھری شجاعت حسین کے سیاسی عروج کے دنوں میں مشرف حکومت کے ہاتھوں اکبر بگتی کا قتل ہوا۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری بگتی خاندان کے داماد ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کی موجودگی میں ہفتے کے دن ان کی تذلیل ہوئی۔ تھپڑ مارے اور بال نوچے گئے۔
پنجاب اسمبلی کے مناظر دیکھتے ہوئے مجھے اکثر یہ گماں ہوا کہ چودھری پرویز الٰہی دوست محمد مزاری کے ساتھ ویسی ہی ’’تاریخ‘‘ دہرانا چاہ رہے ہیں تانکہ کسی ’’دیدہ ور‘‘ کی راہ بنے۔جنرل مشرف کے دور میں وہ ثابت کرچکے ہیں کہ ’’دیدہ وروں‘‘ کی چاکری انہیں خوب آتی ہے۔ 2022کے مگر اپنے تقاضے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی ہماری سیاست کے انتہائی تجربہ کار اور کائیاں ترین کردار ہوتے ہوئے بھی ان تقاضوں کو کماحقہ سمجھنے اور نبھانے میں قطعاََ ناکام رہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر