نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
27مارچ 2022ء کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ عمران خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ ملک کے ہر شہر اور گائوں سے باہر نکل کرقافلوں کی صورت اسلام آباد پہنچیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں کم از کم ’’دس لاکھ‘‘افراد وفاقی دارالحکومت کے ایک وسیع وعریض میدان میںجمع ہوکر ان کے ساتھ بھرپور یگانگت کا اظہار کریں گے۔
اسلام آباد میں ’’دس لاکھ‘‘ افراد جمع کرنا بے پناہ مالی وسائل اور انتظامی توانائیوں کا تقاضہ کرتا ہے۔تحریک انصاف نے اس ضمن میں اپنی قوت 2014ء کے برس میں 126دنوں تک پھیلائے ’’دھرنے‘‘ کی بدولت ثابت کردی تھی۔وہ دھرنا مگر اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا تھا۔ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کے لئے 2016ء میں پھوٹے ’’پانامہ پیپرز‘‘ کا انتظار کرناپڑا۔27مارچ کے دن جو اجتماع ہورہا ہے اس کاہدف اگرچہ میں اب تک سمجھ نہیں پایا ہوں۔
عرصہ ہوا گھر میں گوشہ نشین ہوا محض یہ کالم لکھنے تک محدود ہوچکا ہوں۔دورِ حاضر میں ویسے بھی ’’صحافی‘‘ وہ شخص تصور ہوتاہے جو ٹی وی سکرینوں پر براجمان ہوکر قوم کو نیک راہ پر چلانے کی جدوجہد میں مصروف ہو۔ ان میں سے مقبول ترین صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کے رہ نمائوں کے علاوہ مقتدر حلقے بھی ’’اندر کی بات‘‘ بتادیتے ہیں۔طاقت ور حلقوں تک رسائی سے محروم ہوا مجھ ایسا قلم گھسیٹ رپورٹنگ سے ریٹائرہوجانے کے بعد کالم نگاری کے ذریعے محض ٹیوے ہی لگاسکتاہے۔سیاسی گہماگہمی سے کٹ کر سوچے ٹیوے اکثر اوقات غلط ثابت ہوتے ہیں۔
نظر بظاہر عمران خان صاحب اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کا ہجوم اپنی جماعت میں گھسے ان اراکین قومی اسمبلی کو خوفزدہ کرنے کے لئے جمع کرناچاہ رہے ہیں جو ان کی دانست میں اپوزیشن کے ہاتھوں ’’بک‘‘ چکے ہیں۔عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں کو کامل یقین ہے کہ اقتدار میں باریاں لیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے ’’حرام کی جو دولت‘‘ جمع کررکھی ہے اس کا خیرہ کن حصہ اب ان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرانے کے لئے بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ دس لاکھ افراد کا ہجوم ’’بکائو‘‘ اراکین قومی اسمبلی کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کو مجبور کردے گا۔وہ اپنے حلقوں میں جانے سے خوف محسوس کریں گے۔ ان کے سکولوں میں پڑھتے بچوں کو اپنے ہم جماعتوں کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کی اولاد کو شادی کے لئے مناسب رشتے آنے کے امکان محدود سے محدود تر ہوجائیں گے۔
سیاسی جماعت مگر ’’سماج سدھار تحریک‘‘ نہیں ہوتی۔اس کے قیام کا واحد مقصد اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ اقتدار کا کھیل فقط ’’عوامی اجتماعات‘‘ ہی پر اکتفا نہیں کرتا۔ اسے انتخابی عمل سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد اقتدار مل جانے کے بعد وطن عزیز کی اشرافیہ اور ریاست کے دائمی اداروں سے بھی ’’بناکر‘ ‘رکھنا پڑتا ہے۔
عمران خان صاحب کے ڈاکٹر شہباز گل صاحب جیسے مداحین نے جس زبان اور لب ولہجے میں تحریک انصا ف سے ناراض ہوئے اراکین کی تذلیل کی ہے اس کے بعد ان اراکین کے لئے سرجھکاکراپنی جماعت میں لوٹ آنا ’’عزت وغیرت‘‘ کے نام پر قتل کے عادی پاکستان ایسے معاشرے میں ممکن ہی نہیں۔ناراض اراکین کو اب شاید ایک کروڑ کا اجتماع بھی ’’خوفزدہ‘‘ نہ کرسکے گا۔ ’’غیرت مند پٹھان‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے عمران خان صاحب اس حوالے سے مجھ سے کہیں زیادہ باعلم ہوں گے۔
مذکورہ بالا تناظر لہٰذا مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ اسلام آباد میں اتوار کے دن ’’دس لاکھ‘‘ افرادناراض اراکین کو ’’گھروں میں ڈرانے‘‘ کے لئے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کی خاطر جمع کیا جارہا ہے۔کلیدی مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام آباد کا پرجوش اجتماع’’نیکی اور بدی‘‘ کے مابین عمران خان صاحب کی جانب سے برپاکی حتمی جنگ میں اب ’’نیوٹرل‘‘رہی قوتوں کو اپنا رویہ بدلنے کو مجبور کردے ۔ فرض کیا وہ ’’حق‘‘ کی حمایت کو متحرک ہوگئیں تو ’’ڈنڈا‘‘ دکھاتے ہوئے عمران حکومت کے مخالفین کو ’’بندے کا پتر‘‘ بناسکتے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں اس کے بعد تحریک عدم اعتماد سے دست بردار ہونے کا اعلان بھی کرسکتی ہیں۔’’اسی تنخواہ‘‘پر کام کرنے کو رضامند۔
عمران خان صاحب مذکورہ بالا توقع باندھتے ہوئے خوش گمانی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔اگست 2018ء سے عمران خان صاحب کو تواتر سے ’’سلیکٹڈ‘‘پکارتے ہوئے اگرچہ اپوزیشن جماعتوں نے متعدد بار ان کی حکومت کی جانب سے ہوئی برق رفتار قانون سازی میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا ہے۔ ایسی تابعداری بھی تاہم ان کے کام نہیں آئی۔شہباز شریف بلکہ اس کے باوجود ’’مقصود چپڑاسی‘ کے طعنوں کی زد میں آگئے۔آصف علی زرداری صاحب کوبھی عمران خان صاحب جارحانہ انداز میں رگیدتے رہتے ہیں اور مولانا فضل الرحمن کو انہوں نے ریاست کے طاقت ور ترین نمائندے کے مشورے کے باوجود بھی نہیں بخشا۔ فرماں برادری کی بھی تاہم ایک حد ہوتی ہے۔ میری دانست میں اگر اب اپوزیشن نے حکومت سے کوئی ٹھوس شے حاصل کئے بغیر تحریک عدم اعتماد سے دست برداری کا اعلان کیا تو اس کی سیاست ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی۔میڈیا اور عوام کے لئے وہ ایک پھسپھسا لطیفہ بن جائیں گے۔
عمران خان کے جنونی مداحین کو توقع تھی کہ اتوار کے دن دس لاکھ کے پرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کے قائد تاریخ ساز اعلان کریں گے۔ اس ضمن میں ایک اہم ریاستی عہدے سے بڑے صاحب کی فراغت اور نئی تعیناتی کی امید بھی باندھی گئی ۔ اپنے بااعتماد صحافیوں کے ایک گروہ سے تفصیلی مگر آف دی ریکارڈ گفتگو کرتے ہوئے عمران خان صاحب نے گزرے جمعہ کے دن ایسی توقعات کو شدت سے مسترد کردیا ہے۔
جنونی مداحین مگر اب بھی عمران خان صاحب کی جانب سے کچھ ’’بڑے‘‘ اعلان کی توقع باندھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہمدرد صحافیوں کی اکثریت نے جمعہ کے روز پارلیمان کی راہداریوں میں سرگوشیوں کی بدولت مجھے عندیہ دیا کہ اتوار کے دن عمران خان صاحب اپنے عہدے ہی نہیں قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔ایسے حیران کن اعلان کے بعد وہ نئے انتخاب کے ذریعے ہمارے ’’گلے سڑے‘‘ عدالتی اور انتظامی نظام سے نجات کے لئے عوام سے دو تہائی اکثریت طلب کرنے کی مہم پر روانہ ہوجائیں گے۔ افواہیں یہ بھی گردش کررہی ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلی کی تحلیل پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔
عمران خان صاحب کے بااعتماد حلقوں تک میں کسی بھی نوع کی رسائی کا ہرگز حامل نہیں۔ اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وہ ’’بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں‘‘۔ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو کامل یقین تھا کہ ’’ہمالیہ‘‘ انہیں کھودینے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردے گا۔ وہ مگر 4اپریل 1979ء کے دن پھانسی پر چڑھادئیے گئے۔ حالیہ تاریخ میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی دہائی مچانے کے باوجود نوازشریف صاحب کے نام سے منسوب جماعت 2018ء کے انتخاب میں اپنا جلوہ دکھانے کے ناقابل رہی۔گزشتہ دو برسوں سے وہ اب لندن میں مقیم ہیں۔ان کی جگہ پاکستان مسلم لیگ (نون)کے صدر ہوئے شہباز شریف جو ان کے چھوٹے بھائی بھی ہیں اب عمران خان صاحب اور ان کے حامیوں سے ’’بوٹ پالش‘‘ کے طعنے سن رہے ہیں۔
اقتدار کی مقناطیس سے کہیں بڑھ کر ’’کشش‘‘ ہوتی ہے۔عمران خان صاحب سلطان راہی والی ’’دلاوری‘‘ دکھاتے ہوئے اس سے محروم نہیں ہونا چاہیں گے۔ہم ویسے بھی ’’جہیڑاجتے‘‘ اس کے ساتھ چلنے والی قوم ہیں۔ کئی ’’جابر سلطان‘‘ ہمارے اجتماعی حافظے کے ہیرو ہیں۔ طاقت ور قوتوں کو للکارنے کے بعد ذلت آمیز انداز میں ناکام رہنے والوں کی بابت اگرچہ مرثیہ لکھنے کی بھی ہمیں عادت ہے۔ عمران خان صاحب مستقبل میں لکھے مرثیوں کے لئے جبلی اعتبار پر آمادہ نہیں ہوں گے۔اس ضمن میں قطعی رائے بنانے کے لئے اگرچہ اتوار کا دن گزرجانے کا انتظار کرنا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر