نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’کواکب‘‘ وہ نہیں جو نظر آتے ہیں|| نصرت جاوید

لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت یہ دعویٰ کرنے کی وجہ سے محسوس ہوئی ہے کہ میری دانست میں وزیر اعظم کے خلاف منگل کے دن جو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی گئی ہے وہ وطن عزیز کو سیاسی استحکام فراہم کرنے کے بجائے 1950کی دہائی میں واپس بھیج دے گی۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو روز قبل وطن عزیز میں قوت واختیار کے حقیقی منابع تک مؤثر رسائی کی بدولت مشہور ہوئے ایک ٹی وی اینکر نے سوشل میڈیا پر تازہ ترین سیاسی صورتحال کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔دو منٹ تک پھیلی ان کی وڈیو ’’تجزیہ ‘‘نہیں عمران خان صاحب کے خلاف تیار ہوئی سنسنی خیزچارج شیٹ تھی۔ اسے بہت غور سے دیکھنے اور سننے کے بعد جی چاہا کہ جوتا اٹھائوں اور اسے اپنے سر پہ برسانا شروع کردوں۔ایسی کیفیت کو غالبؔ نے ’’حیران ہوں کہ روئوں یا پیٹوں جگر کو میں‘‘ والی سلیقہ مندی کے ساتھ پیش کررکھا ہے۔

میرے جنونی اضطراب کی کلیدی وجہ ان ہی اینکر کی جانب سے وزیر اعظم صاحب کے ساتھ گزشتہ برس ہوا ایک طویل انٹرویو تھا۔ مذکورہ انٹرویو کے دوران موصوف عمران خان صاحب سے تندوتیز نہ سہی مناسب سوالات اٹھانے کے بجائے انہیں نہایت عاجزی سے آگاہ کرتے رہے کہ اگست 2018میں اقتدار سنبھالنے کے بعد موجودہ حکومت نے پاکستان کی معیشت کو بحال کرنے اور اسے ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑانے کے لئے کونسے ’’انقلابی‘‘ اقدامات متعارف کروادئیے ہیں۔عمران خان صاحب اپنی تعریف سن کر عموماََ شرماجاتے ہیں۔جس انٹرویو کا ذکر ہورہا ہے اس کے دوران بھی اینکر کی مدح سرائی کے دوران وہ ہکا بکا ہوئے بیٹھے رہے۔ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے باوجود مجھے وہ انٹرویو دیکھتے ہوئے ہی دریافت ہوا کہ ’’سہرا‘‘ کیسے لکھا جاتا ہے۔

مذکورہ اینکر کے علاوہ دیگربھی کئی نامور ساتھی ہیں جو 2011سے مسلسل ’’جب آئے گا عمران…‘‘ والا ماحول گرمائے چلے جارہے تھے۔ان دنوں اگرچہ ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘‘۔عمران حکومت کے خلاف ان کے دلوں میں کھولتے غصہ کا مشاہدہ کرتا ہوں تو اپنی حماقتیں اور بدنصیبیاں یاد آنا شروع ہوجاتی ہیں۔

عمران خان صاحب 1996کے دوران سیاسی اکھاڑے میں اترے تھے۔ ان کے چند دیرینہ دوستوں سے میری بھی ذاتی قربت تھی۔ ان کے ساتھ تنہائی میں ہوئی گفتگو کے دوران ہمیشہ یہ سمجھانے کو مصر رہا کہ سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔یہاں پگڑی اچھلتی ہے۔عمران خان صاحب نے کرکٹ کے علاوہ لاہور میں اپنی والدہ کی یاد میں کینسر کے موذی مرض کے لئے جدید ترین ہسپتال تعمیر کرتے ہوئے مزید شہرت نہیں بلکہ نیک نامی کمائی ہے۔بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی کشش کو فلاحی کاموں تک مختص رکھیں۔ اکتوبر 2011میں انہیں گج وج کے ساتھ لاہور کے ایک جلسے کے ذریعے لانچ کرنے والے چند کرداروں کے روبرو بھی یہ خواہش دہراتا رہا۔

’’جب آئے گا عمران…‘‘ والا شور تاہم برپا ہوچکا تھا۔میں اس سے اُکتاکر اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست کی بابت اپنے تحفظات کے ڈھٹائی اور ثابت قدمی کے ساتھ اظہار کو مجبور ہوگیا۔ اس حماقت کی وجہ سے خان صاحب کی سرپرستی میں چلائے سوشل میڈیا پر حاوی غول کی زد میں آگیا۔اپنی ذات پر ہوئے حملے ڈھیٹ صحافیوں کو برداشت کرنے کی عادی ہوتی ہے۔اپنے بچوں کی بے وجہ شرمساری مگر گہرے زخم لگادیتی ہے۔عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد ایک صحافتی ادارے پر ’’مالیاتی بوجھ‘‘ ٹھہراتے ہوئے ٹی وی سکرین سے بھی فارغ کردیا گیا۔رزق کمانے کے راستے اس کے بعد محدود سے محدود تر ہوتے چلے گئے۔’’ساہنوں مرن دا شوق وی سی‘‘ سوچتے ہوئے تاہم اپنے گھر میں گوشہ نشین ہوگیا۔

لمبی تمہید باندھنے کی ضرورت یہ دعویٰ کرنے کی وجہ سے محسوس ہوئی ہے کہ میری دانست میں وزیر اعظم کے خلاف منگل کے دن جو تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروائی گئی ہے وہ وطن عزیز کو سیاسی استحکام فراہم کرنے کے بجائے 1950کی دہائی میں واپس بھیج دے گی۔اس دہائی کے دوران وزرائے اعظم فقط محلاتی سازشوں کے ذریعے اپنے منصب پر بٹھائے اور وہاں سے فارغ کئے جاتے تھے۔محلاتی سازشوں نے بالآخر ہمیںاکتوبر 1958تک پہنچایا۔ ہماری زندگی کے دس سال اس کی وجہ سے ایک ’’دیدہ ور‘‘ کی نذر ہوئے۔موصوف نے الطاف گوہر کے ذریعے ’’آپ بیتی‘‘ لکھوا کر اپنے زوال کا ذمہ دار انگریزی میں ’’دوستوں‘‘ کے بجائے ’’(غیر ملکی)آقائوں‘‘کو ٹھہرایا۔ اردو میں اس کتاب کو ’’جس رزق سے آتی ہو…‘‘کا عنوان دیا گیا۔ ہونی مگر ٹلی نہیں۔پاکستان بھی ان کی رخصت کے بعد بلکہ دولخت ہوگیا۔ 1977میں ذوالفقار علی بھٹو بھی ’’ہاتھیوں‘‘ سے بچ نہیں پائے تھے۔ ان کی جگہ نمودار ہوئے جنرل ضیاء الحق فضائی حادثے میں اپنی موت سے قبل ’’کوئلوں کی دلالی‘‘ کا ذکر کرتے رہے۔امریکی صدر بش کے ساتھ ہمارے جنرل مشرف کا ’’جگری(Buddy)‘‘ہونا بھی 2008میں ان کے کام نہیں آیا تھا۔ ’’عالمی سازشوں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان صاحب گزشتہ چند دنوں سے تاریخ دہراتے ہی سنائی دے رہے ہیں۔

جو فضا بن رہی ہے اس کے دوران یہ سوال قطعاََ فروعی ہوچکا ہے کہ عمران خان صاحب کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے وہ کامیاب ہوگی یا نہیں۔محض نظر آنے والے حقائق پر توجہ مرکوز رکھیں تو مذکورہ تحریک کو ویسی ہی ناکامی کا سامنا کرنا چاہیے جو 1989کے اکتوبر میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کی خواہش رکھنے والوں کامقدر ہوئی تھی۔ہمارے ہاں ’’مگر ’’کواکب‘‘ وہ نہیں ہوتے جو نظر آتے ہیں۔ مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹروں کو اگرچہ محض نظر آنے والے حقائق پر توجہ مرکوز رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔میں اس تربیت سے واقعتا شرمندہ ہوں۔عمر کے مگر اس حصے میں داخل ہوچکا ہوں جہاں عمر رسیدہ گھوڑے کی طرح نئے کرتب سیکھ نہیں سکتا۔ کاش صحافت کے شعبے میں داخل ہوتے ہی ’’اندر کی خبر‘‘ رکھنے والوں تک رسائی کا گُرسیکھ لیتا۔ اس کے بعد صحافی تو ہرگز نہ رہتا مگر خوش حال ’’منشی‘‘ کی حیثیت ہر صورت نصیب ہوجاتی۔اپنی مذمت میں مبتلاہوئے ان دنوں میں آپ کو اعتماد سے بتانہیں سکتا کہ عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا ناکام۔اس کا انجام جو بھی ہو مذکورہ تحریک طویل المدت تناظر میں عمران خان صاحب کے علاوہ دیگر تمام سیاستدانوں کی شہرت اور بیانیوں وغیرہ کو بھی شدید تر نقصان پہنچائے گی۔

بشکریہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author