نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روس اور اس کے صدر پوٹن کو امریکہ اور مغرب کی نفرت میں ہمارے محبان وطن جس والہانہ انداز میں ان دنوں سراہ رہے ہیں ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے مجھے 1980ء کی دہائی مسلسل یاد آرہی ہے۔ اس دہائی میں خارجہ امور کا بے چین رپورٹر ہوتے ہوئے میں ’’افغان جہاد‘‘ کی بابت بہت پریشان رہتاتھا۔ ہمارے ہاں اس دور میں تمام سیاسی جماعتیں ’’کالعدم‘‘ ٹھہرادی گئی تھیں۔ اسلام آباد آئے کسی بھی سیاست دان کو صحافیوں سے گفتگو کی اجازت نہیں تھی۔ وہ ذاتی دوستوں کے گھروں میں ہم سے خفیہ ایجنسیوں سے چھپ چھپاکر ملاقاتیں کرتے۔کئی بار ان سے طے شدہ وقت کے مطابق ملاقات کے لئے پہنچتے تو خبر ملتی کہ جس سیاست دان سے گفتگو ہونا تھی اسے ’’شہر بدر‘‘ کردیا گیا ہے۔کئی سیاستدانوں کو ان کے دوستوں کے گھر ہی میں نظربند بھی کردیا جاتا۔
’’تازہ خبر‘‘ تاہم میرے وسوسے بھرے دل کو ابھی تک گرما نہیں پائی ہے۔معاشی امور کی بابت قطعی نابلد ہوتے ہوئے بھی میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ ہماری برآمدات کی سب سے بڑی منڈی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہیں۔ہمارے لاکھوںتارکین وطن بھی ان ممالک کے شہری اور رہائشی بن چکے ہیں۔ ان کی بھیجی رقوم سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو ٹھوس سہارا میسر رہتا ہے۔ہمارے متوسط طبقات کی بے پناہ اکثریت کے بچے اعلیٰ تعلیم کے لئے ان ہی ممالک کی یونیورسٹیوں سے رجوع کرتے ہیں۔ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے ان ممالک میں قیمتی جائیدادیں بھی خرید رکھی ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر آنکھیں دکھانے سے قبل وہ سوبار سوچیں گے۔ عمران خان صاحب کے مداحین مگر اس جانب گرم جوشی سے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔
بھارت کے رویے پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھی یاد رکھنا ہوگی کہ مودی سرکار نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کو آئینی اعتبار سے اپنا ’’اٹوٹ انگ‘‘ بنالیا ہے۔وسیع تر تناظر میں مذکورہ قدم ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے خواب کی تعبیر بھی ہے۔پوٹن نے فوجی جارحیت کے ذریعے یوکرین کو اگر ’’اکھنڈ روس‘‘ کا حصہ بنالیا تو ہم بین الاقوامی اداروں میں کشمیر کا مقدمہ کن دلائل کے ساتھ لڑیں گے۔ ان تمام سوالات پر غور کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ شاعر کا ایک شعر ذہن میں گزشتہ دو دنوں سے اٹکا ہوا ہے۔ شعر ہے:’’ ہے منیرؔ حیرت مستقل۔میں کھڑا ہوں ایسے مقام پر‘‘۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر