نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیو ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے برملا اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے دبائو کی وجہ سے آئی ایم ایف پاکستان کو ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کے لئے کڑی شرائط عائد کررہا ہے۔آصف علی زرداری کی کاوشوں سے ترین صاحب یوسف رضا گیلانی کے مشیر خزانہ بھی ہوئے تھے۔مذکورہ حیثیت میں انہوں نے 2009میں بھی آئی ایم ایف سے امدادی رقوم کے حصول کے لئے مذاکرات کئے۔اپنے انٹرویو کے دوران انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس برس آئی ایم ایف کا رویہ دوستانہ تھا۔ اب کی بار مگر ’’بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں‘‘۔
وزیر خزانہ کے برملا اعتراف کے باوجود ہمارے ہاں جناتی انگریزی میں معاشی موضوعات پر لکھنے والے ’’ماہرین‘‘ کا لشکر اصرار کئے چلاجارہا ہے کہ آئی ایم ایف نے ہماری معیشت کی بحالی اور خوشحالی کے لئے جو نسخہ تیار کیا ہے وہ وقتی طورپر تکلیف دہ تو ہے، طویل المدت بنیاد پر لیکن یہ نسخہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کردے گا۔ہماری معیشت کے تمام شعبے ’’دستاویزی‘‘ ہوجائیں گے۔لوگوں کے لئے اپنی آمدنی چھپانا ممکن نہیں رہے گا اور ہماری ریاست زیادہ سے زیادہ ٹیکس حاصل کرنے کے قابل ہوجائے گی۔پاکستانیوں میں اپنی آمدنی کے عین مطابق ٹیکس دینے کی عادت پختہ ہوگئی تو ہماری ریاست کو غیر ملکی قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
علم معیشت کی نصابی کتابوں میں جو اصول پڑھائے جاتے ہیں پاکستان کی معیشت کا ان کی روشنی میں جائزہ لینے والے ’’ماہرین‘‘ درحقیقت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بنائے مختلف ’’تھنک ٹینکوں‘‘ کے ملازمین رہے ہوتے ہیں۔ان کی خاطرخواہ تعداد ایسے اداروں کے لئے ٹھیکے پر رپورٹ رائٹنگ یاسروے وغیرہ کرتے ہوئے ڈالروں میں عوضانہ وصول کرتی ہے۔عالمی معیشت کے اجارہ دار ادارے ایسے ہی غلام ذہنوں کی ’’ذہانت وفطانت‘‘ سے ہم جیسے ممالک کی بے بس ولاچار رعایا کو تلخ حقائق سے بے خبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ژاں پال سارتر جیسے لکھاریوں نے ایسے ’’دانشوروں‘‘ کو Bad Faithیا بے ضمیری کی آوازیں ٹھہرایا تھا۔
معیشت کو ہر صورت ’’دستاویزی‘‘ بنانے کی کہانیاں ہم نے جنرل مشرف کے ابتدائی ایام میں بھی تواتر سے سنی تھیں۔ ان دنوں بھی جناتی انگریزی میں رعونت بھرے خیالات پھیلانے والے ’’دانشور‘‘ جمہوری نظام پر مبینہ طورپر قابض ہوئے ’’نااہل اور بدعنوان‘‘ سیاستدانوں سے بیزار نظر آتے تھے۔ انہیں امید تھی کہ جنرل مشرف نے اپنے سات نکاتی ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لئے شوکت عزیز جیسے ٹیکنوکریٹ افراد کی جو ٹیم چنی ہے وہ پاکستان کو معاشی استحکام کے علاوہ ’’حقیقی جمہوری نظام‘‘ کا حامل ملک بھی بنادے گی۔
معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کے لئے فوج کی نگرانی میں سروے کے لئے حکومتی ٹیمیںتاہم بازاروں میں جانا شروع ہوئیں تو انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کی مہم اگرچہ جاری رہی۔ دریں اثناء نائن الیون ہوگیا۔اس نے امریکہ کو افغانستان پر قبضے کو اکسایا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے پاکستان اس کا کلیدی اتحادی بن گیا۔ ہمارے تعاون نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کو بھی مہربان بنادیا۔ہماری معیشت حقیقی معنوں میں ’’دستاویزی‘‘ ہوئے بغیر خوش حال نظر آنا شروع ہوگئی۔ ’’وقتی خوش حالی کا حقیقی سبب اگرچہ وہ دوستانہ رعایتیں تھیں جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے فراہم کیں۔ اس کے علاوہ ’’کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘کے نام پر بھی ہمیں امریکہ سے وافر رقوم مہیا ہوتی رہیں۔
2006کے اختتامی ایام میں لیکن واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں نے پاکستان پر ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلنے کے الزامات لگانا شرو ع کردئیے۔ جنرل مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے روابط بڑھانے کو بھی مجبور کیا گیا۔بھارت کے ساتھ دائمی امن کے حصول کے لئے خفیہ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ہمارے ہاں لیکن پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اتحاد سے ناراض ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے وحشیانہ دہشت گردی کا آغاز کردیا۔اس کے علاوہ عدلیہ بحالی کی تحریک بھی شروع ہوگئی۔معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے پر بضد ماہرین اس دوران منافقانہ خاموشی کو ترجیح دیتے رہے۔وقتاََ فوقتاََ اگرچہ جنرل مشرف کی ’’روشن خیالی‘‘ کے گن گاتے رہے۔
حالیہ تاریخ کا تفصیلی ذکر فقط یہ عرض کرنے کو مجبور ہواہوں کہ آئی ایم ایف نصابی کتابوں میں بیان کردہ محض ایک بینک نہیں ہے۔ یہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ ہے۔امریکہ اس کی پالیسی سازی میں کلیدی اختیارات کا حامل ہے اور وہ اس ادارے کو دیگر ممالک پر سیاسی دبائو بڑھانے کے لئے بے دریغ انداز میں استعمال کرتا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے ان دنوں پاکستان کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنایا جارہا ہے۔اس کا حقیقی ہدف پاکستان کی معیشت کو نصابی اصولوں کے اطلاق کے ذریعے توانا تر اور خوش حال بنانا ہرگز نہیں۔بہت مہارت سے ہمیں افغانستان میں امریکہ کو درپیش ذلت ورسوائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مختلف النوع شکنجوں میں جکڑاجارہا ہے۔جناتی انگریزی لکھنے والے ماہرین اس پہلو کو مگر دانشورانہ بددیانتی اختیار کرتے ہوئے نظرانداز کررہے ہیں۔ معیشت کو ’’دستاویزی‘‘ بنانے کا ڈھول پیٹے جارہے ہیں۔ربّ کریم ہمیں ایسے ماہرین کی ’’ذہانت وفطانت‘‘ سے محفوظ رکھے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر