نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ارب اور ساڑھے تین سو ارب روپے کے درمیان زمین اور آسمان والا فرق ہوتا ہے۔ ”فنانس (ترمیمی) بل 2021“ کے عنوان سے جو ”منی بجٹ“ جمعرات کی سہ پہر شوکت ترین صاحب نے قومی اسمبلی کے روبرو رکھا وہ روزمرہ ضرورت کی تقریباً 144 اشیاء کو ٹیکس کے ضمن میں فراہم کردہ نرمی واپس لیتے ہوئی قومی خزانے کے لئے مزید ساڑھے تین سو ارب روپے جمع کرنا چاہ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کے مصاحبین وترجمانوں کا مگر اصرار ہے کہ میرے اور آپ جیسے عام شہریوں کو باہم مل کر سرکار کو فقط دو ارب روپے مہیا کرنا ہوں گے۔ عام آدمی کو گویا نئے ٹیکسوں سے بچالیا گیا ہے۔
حقیقت کیا ہے اسے طے کرنا مجھ جیسے معاشی امور سے نابلد قلم گھسیٹ کے بس کی بات نہیں۔ یہ کالم لکھنے سے قبل مگر پیٹرول پمپ گیا تھا۔ گاڑی کی ٹینکی بھروانے کے لئے پانچ ہزار روپے کا نوٹ دیا تو واپس دو سو روپے ملے۔ چند دن قبل تک یہ مسئلہ چار ہزار روپے سے کم میں حل ہوجایا کرتا تھا۔ مہنگائی کی نئی لہر ٹھوس تجربے سے محسوس کرلی ہے۔ گھر لوٹ کر اخبارات کے صفحۂ اول پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ وطن عزیز میں افراط زر کی شرح 12.3 فی صد کو چھورہی ہے۔ یہ شرح حکومت پاکستان کے اعداد و شمار پر نگاہ رکھنے والے ایک ادارے ہی نے بتائی ہے۔ گزشتہ 21 مہینوں کے درمیان یہ انتہا کا ریکارڈ بناتی شرح بھی رپورٹ ہوئی ہے۔ حکومتی ترجمان مگر دعویٰ کر رہے ہیں کہ روزمرہ اشیاء خاص کر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ میڈیا میں گھسے چند سیاپا فروش لیکن اسے عوام کے سامنے نہیں لارہے۔ مہنگائی کی دہائی مچائے جا رہے ہیں۔
منی بجٹ کو قومی اسمبلی کے روبرو رکھنے سے قبل حکومت نے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کا اجلاس بھی طلب کیا تھا۔ عمران خان صاحب نے اس اجلاس کی صدارت فرمائی۔ طویل وقفے کے بعد رپورٹر کے تجسس کو بروئے کار لاتے ہوئے میں نے مذکورہ اجلاس میں شریک کم ازکم دس لوگوں سے رابطہ کیا۔ ان سے الگ الگ گفتگو کے بعد دریافت ہوا کہ مذکورہ اجلاس کے دوران کسی ایک رکن نے محتاط ترین الفاظ میں بھی وزیر اعظم کو متنبہ نہیں کیا کہ شوکت ترین صاحب کا تیار کردہ منی بجٹ مہنگائی کی نئی اور شدید ترین لہر کو مہمیز لگائے گا۔ زر عی حلقوں سے تعلق رکھنے والے چند اراکین نے اگرچہ شکوہ کیا کہ بازار میں کھاد سرکار کے طے کردہ نرخوں کے مطابق بآسانی میسر نہیں۔ مناسب کھاد کے بغیر جو فصلیں بوئی گئی ہیں بھرپور پیداوار نہیں دے پائیں گی۔
میرے اور آپ کے ووٹ سے قومی اسمبلی پہنچ کر حکومتی نشستوں پر براجمان ہوئے اراکین گویا مہنگائی کو ہمارا بنیادی مسئلہ تصور نہیں کر رہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ان کی کثیر تعداد نے منی بجٹ کے خلاف دہائی مچاتے اپوزیشن اراکین کے خلاف نہایت حقارت سے ”چور۔ چور“ کی آوازیں بھی بلند کیں۔ حکومت کا دل وجاں سے ساتھ دیا۔ اپوزیشن جماعتیں گزشتہ کئی دنوں سے جبکہ تاثر یہ پھیلارہی تھیں کہ 25 سے زیادہ حکومتی اراکین ان سے رابطے میں ہیں۔ آئندہ انتخاب کے دوران وہ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر کھڑے ہونا نہیں چاہ رہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی سرپرستی کے خواہش مند ہیں۔ حکومتی بنچوں کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف ان کا جارحانہ رویہ مذکورہ تاثر کو شدت سے رد کرتا نظر آیا۔
اپوزیشن کو حکومتی صفوں سے منی بجٹ کے خلاف مزاحمت کی واقعتاً امید ہوتی تو اسے بھڑکانے کے لئے قائد حزب اختلاف بذات خود ایوان میں موجود ہوتے۔ شہباز شریف صاحب نے مگر وہاں تشریف لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بلاول بھٹو زرداری بھی موجود نہیں تھے۔ شوکت ترین صاحب کو لہٰذا شدید مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا۔ تھوڑا ہنگامہ ہوا وہ مگر کسی بھی حوالے سے ”تاریخی“ ہرگز نہیں تھا۔ جمعہ کی صبح محض 12 منٹ کی کارروائی کے بعد قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی بھی کر دیا۔
ہمارے میڈیا میں تاثر یہ پھیلایا گیا کہ چونکہ حکومت اپنے اراکین کو ایوان میں لانے اور وہاں موجود رکھنے میں مسلسل ناکام ہو رہی ہے اس لئے قومی اسمبلی کے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہمارا تحریری آئین یہ تقاضا کرتا ہے کہ قومی اسمبلی میں منی بجٹ پر رائے شماری سے قبل سینٹ کی فنانس کمیٹی سے آئی ان سفارشات کا انتظار کیا جائے جو کسی بھی مالیاتی بل پر کم ازکم چودہ دنوں کے دوران غوروخوض کے بعد تیار کی جاتی ہیں۔ یہ کالم چھپنے کے روز یا اس سے ایک دو روز بعد سینٹ کا اجلاس لہٰذا طلب کرنا ہو گا۔ وہاں سے آئی سفارشات کا انتظار بھی لازمی ہے۔ حکومت کو نظربظاہر منی بجٹ کو سرعت سے منظور کروانے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ اس سے قبل اگرچہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ منی بجٹ کو 12 جنوری سے قبل منظور کروانا ہر صورت لازمی ہے۔ اس دن واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہونا ہے جو پاکستان کو ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کی منظوری دے گا۔ حکومتی ترجمان مگر اب یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ 12 جنوری حتمی تاریخ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کے حصول کے لئے پاکستان مزید کچھ دن تک انتظار کر سکتا ہے۔ حکومتی صفوں میں لہٰذا ”ستے خیراں“ کا ماحول ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے ”مارچ اپریل“ کی بابت قیاس آرائیاں مجھے تو یا وہ گوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ میں اگرچہ ٹھوس حوالوں سے ان قیاس آرائیوں کا جائزہ لوں تو موجودہ حکومت کے کئی ناقد مجھ پر مایوسی پھیلانے کا الزام لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ کاش میں ٹھوس حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے امید ایجاد کرنے کے قابل ہوتا۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر