نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکمرانوں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی رعایا تلخ حقائق سے غافل رہے۔ ہمہ وقت ’’سب اچھا ہے‘‘ والا گماں برقرار رہے۔ جمہوری نظام کے نمودار ہونے کے بعداگرچہ یہ فرض لیا گیا کہ حقائق کو عوام سے چھپایا نہیں جائے گا اور صحافی حقائق بے نقاب کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔صحافت مگر بتدریج بذات خود ایک دھندے میں تبدیل ہوگئی۔ ہر کاروبار کی طرح اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع کمانا اس کی ترجیح ہوگئی اوریوں حکمران اشرافیہ کا حصہ بن گئی۔ لوگوں کو سادہ ترین زبان میں حقائق کی بابت مسلسل آگاہ رکھنے کا فرض بھلادینے کے باوجود ہم مگر اپنی غفلت کے اعتراف کو بھی آمادہ نہیں ہیں۔
وطن عزیز میں ان دنوں کلیدی سوال میری دانست میں یہ ہے کہ ریاست کو چلانے کے لئے آج سے چھ ماہ قبل تیار ہوئے بجٹ میں رواں مالی سال کے دوران مزید 600ارب روپے میری اورآپ کی جیب سے نکالنے کے لئے کیا جگاڑ لگائی جائے۔ عام فہم زبان میں اضافی ٹیکس متعارف کروانے والی رسم کو ’’منی بجٹ‘‘ پکارا جاتا ہے۔یہ اصطلاح مگر یہ پیغام بھی دیتی ہے کہ رواں سال کا بجٹ تیار کرنے والے نابغے پاکستان کے معاشی حقائق سے کماحقہ آگاہ نہیں تھے۔ان کے سوچے ہوئے اندازے غلط ثابت ہوئے اور ضمنی بجٹ کے ذریعے مزید رقوم کے حصول کو یقینی بنانا پڑا۔
شوکت ترین صاحب نے رواں سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کمال رعونت سے بارہا دہرایا تھا کہ پاکستان میں معاشی ترقی کے ٹھوس اعدادوشمار نے بے تحاشہ عالمی ماہرین کو بھی حیران کردیا ہے۔حیران کن شرح نمو حاصل کرلینے کے بعد حکومت کو عوام پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہیں رہی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی ترقی وخوشحالی کی جانب بڑھتے سفر کو سست رفتار بنادے گا۔ہم سادہ دلوں نے ان کے دعوے پر اعتبار کیا۔ یہ اعتبار اس لئے بھی لازمی تھا کہ کیونکہ قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر شوکت ترین صاحب اپنے والد مرحوم کا نام بھی بہت فخر سے لیتے اور ان کا فرزند ہوتے ہوئے خود کو جھوٹ بولنے سے نفرت کی علامت بھی قرار دیتے رہے۔بجٹ منظوری کے تین ماہ بعد مگر آشکار ہوگیا کہ ترقی اور خوشحالی کی کہانیاں محض واہمے ہیں۔ ہم سادہ دلوں نے ان پر اعتبار کیا۔عالمی معیشت کا مگر ایک نگہبان ادارہ بھی ہے۔اسے آئی ایم ایف پکارا جاتا ہے۔اس ادارے کا مرکزی دفتر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ہے اور امریکہ آئی ایم ایف کی پالیسی سازی میں فیصلہ کن اختیار کا حامل بھی ہے۔ آئی ایم ایف نے شوکت ترین صاحب کی بتائی کہانی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔تقاضہ کیا کہ پاکستان کے عوام سے مزید 600ارب روپے کسی نہ کسی صورت جمع کرنے کی ترکیب سوچی جائے۔وہ ترکیب سوچ لی گئی ہے۔چند صحافیوں کی لگن کے سبب اس کے کلیدی خدوخال بھی ہمارے سامنے آچکے ہیں۔اب اسے پارلیمان سے منظور کروانا ہے۔
منی بجٹ کو منظوری کے لئے قومی اسمبلی کے روبرو رکھنے سے قبل اس کی وفاقی کابینہ سے منظوری بھی لازمی تصور ہوتی ہے۔ یہ منظوری گزشتہ ہفتے کے منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس نے دینا تھی۔ اس کے روبرومگر اسے پیش ہی نہیں کیا گیا۔قومی اسمبلی کے اجلاس اس کے بعد کورم نہ ہونے کے سبب مسلسل مؤخر ہوتے رہے۔امید تھی کہ اب جو منگل گزرا ہے اس دن وفاقی کابینہ منی بجٹ کی منظوری فراہم کردے گی اور بدھ کی سہ پہر اسے بالآخر قومی اسمبلی میں بھی پیش کردیا جائے گا۔یہ منگل بھی گزرگیا ۔وفاقی کابینہ نے مگر منی بجٹ کی منظوری ابھی تک نہیں دی ہے۔
منگل کے روز وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہوا تو حسب روایت وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب اس اجلاس کی بابت بریفنگ کے لئے صحافیوں کے روبرو آئے۔ڈاکٹر معید یوسف ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ یہ جواں سال عالم قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔انہوں نے بہت لگن سے قومی سلامتی پالیسی کو مرتب کیا ہے۔وفاقی کابینہ نے اس کی منگل کے روز منظوری دے دی ہے۔ حکومت اس پالیسی کی بابت بہت شاداں محسوس کررہی ہے۔ہمیں بتایا جارہا ہے کہ دیگر کئی تاریخ ساز فیصلوں کی طرح عمران حکومت کو پہلی بار قومی سلامتی پالیسی تیار کرنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا ہے۔
مذکورہ دعویٰ سنتے ہوئے مجھ جیسے ازلی جاہل کے ذہن میں سوال اٹھا کہ آیا قیام پاکستان سے آج تک ہماری قومی سلامتی کو بغیر کسی پالیسی کے یقینی بنایا جارہا تھا۔ اس کے بارے میں غور کیا تو نہیں کے علاوہ کوئی جواب نہ سوجھا۔قومی سلامتی پالیسی کی باقاعدہ تیاری کے بغیر بھی پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے خود کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا۔نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران مئی 1998میں ایٹمی دھماکوں کے ذریعے ہم نے بالآخر اس ضمن میں اپنی قوت وصلاحیت دنیا پر ثابت بھی کردی۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے علاوہ سوویت یونین کو تاریخ کے کوڑے دان میں سپرد کرنے کے لئے 1980کی دہائی سے ہم امریکہ اور سعودی عرب جیسے دوست اور برادر ممالک سے مل کر افغانستان میں جہاد کو بھرپور سرپرستی بھی فراہم کرتے رہے۔ بعدازاں نائن الیون ہوا تو امریکہ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ بھی دینا پڑا۔ دل ہما رے اگرچہ طالبان کی خیر خواہی کے لئے دھڑکتے رہے۔ بالآخر اگست 2021میں امریکہ افغانستان میں ذلیل ورسوا ہوکر وہاں سے فرار ہوگیا ہے۔مذکورہ فرار کے بعد عمران خان صاحب نے افغانوں کو ’’غلامی کی زنجیریں توڑنے‘‘ کی بنیاد پر مبارک بھی دی۔میرا نہیں خیال کہ افغانستان کے حوالے سے ہماری ریاست کا رویہ بغیر کسی سوچی سمجھی پالیسی کے چلایا جا رہا تھا۔
بہرحال ہم جاہل رعایا کو سر جھکاتے ہوئے اب یہ تسلیم کرنا ہے کہ قیام پاکستان کے طویل برس گزرجانے کے بعد بالآخر قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے باقاعدہ پالیسی مرتب کرلی گئی ہے۔ڈاکٹر معید یوسف صاحب اس کے خالق شمار ہوں گے۔دورِ حاضر کے ہنری کیسنجر یا بسمارک۔ربّ کریم ان کے ذہن کو مزید توانائی عطا فرمائے۔
دوٹکے کا ریٹائر ہوا رپورٹر مگر اب بھی یہ سوال اٹھانے کومجبور ہے کہ منگل کے روز ہوئے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے منی بجٹ کی منظوری کیوں نہیں لی گئی۔ اس ضمن میں پنجابی محاورے والی ’’گوٹ‘‘ کہاں پھنسی ہوئی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ 12جنوری کو آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس ہونا ہے۔ اس اجلاس نے پاکستان کو ایک اب ڈالر فراہم کرنے کی منظوری دینی ہے۔مطلوبہ رقم کے حصول کے لئے مگر لازمی ہے کہ حکومت پاکستان قومی اسمبلی سے 600ارب روپے کی اضافی رقم کے حصول کو یقینی بنانے والی دستاویز کو منظور کروائے۔ہمیں اس ضمن میں ہوئی پیش رفت کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کی بابت تاہم مسلسل بے خبر رکھا جارہا ہے۔
مذکورہ سوال کے جوابات ڈھونڈنے کی جستجو میں مصروف ہونے کے بجائے ریگولر اور سوشل میڈیا پر حاوی ذہن سازوں کی اکثریت متوازی عدالتیں لگاتے ہوئے گلگت بلتستان کے کئی سال قبل ریٹائر ہوئے جج رانا شمیم کی جانب سے تیار ہوئے ایک حلف نامے کی اصلیت اور افادیت طے کرنے کو تڑپ رہی ہے۔یہ معاملہ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی عدالت میں طے ہونے کاعمل جاری ہے۔’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘ والی حقیقت ہم صحافی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔اپنا فریضہ یعنی عوام کو حقائق سے باخبر رکھنا بھلابیٹھے ہیں اور دوسروں کے چھابے میں ہاتھ مارتے ہوئے صحافت نامی دھندا چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر