نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوانوں کی طرح روزانہ اس کالم میں دہراتے رہنے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ ہم 22 کروڑ پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کسی جمہوری مملکت کے با اختیار شہری نہیں۔ مختلف النوع سلطانوں کی محض رعایا ہیں۔ جی حضوری ہماری جبلت ہے۔ ہمیں مگر اپنی بے اختیار حیثیت کا اندازہ ہی نہیں۔ وقتاً فوقتاً چند آڈیوز یا وڈیوز لیک ہوجاتی ہیں اور ریگولر یا سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے ذہن ساز انہیں درست یا غلط ثابت کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یوں ہماری توجہ اصل مسائل سے ہٹانے والے تماشے شروع ہو جاتے ہیں۔
بے اختیاری مگر میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں ہی کا مقدر نہیں ہے۔ دکھاوے کو ہمارے ہاں عوام کی منتخب کردہ پارلیمان بھی موجود ہے۔ اس میں بیٹھے افراد ہماری اشرافیہ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ ریاستی اقدامات پر کڑی نگاہ رکھنے کے نام پر ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں بھاری بھر کم کمیٹیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ ان میں سے طاقت ور ترین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بھی ہے۔ اس کی بدولت بروقت دریافت کیا جاسکتا ہے کہ میرے اور آپ کے دیے ٹیکسوں اور غیر ملکی قرضوں یا امداد کے ذریعے جمع ہوئی رقوم کیسے خرچ ہو رہی ہیں۔ یہ کمیٹی مگر اپنے اختیار کو واقعتاً استعمال کرنے کے قابل ہوتی تو ہمیں نیب جیسے جلاد ادارے بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں کو مجھ جیسے صحافی مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں اپنی مشکلات کا واحد ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مگر یہ ادارے ہی ہماری اشرافیہ کی سفاک خامیوں کو بے نقاب کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوتے ہیں۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے مذکورہ ادارے پاکستان جیسے ممالک میں ریاستی بندوبست کو للکارنے والی دہشت گردی سے گھبراگئے ہیں۔ نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوئے ہوتے تو شاید وہ اس ضمن میں پریشان نہ ہوتے۔ ان کی پریشانی نے مذکورہ اداروں کو بتدریج مجبور کیا کہ وہ ان سے واسطہ رکھنے والے ممالک کو بھی مجبور کریں کہ وہ آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سے ہوئے معاہدے کو اپنے عوام کے روبرولائیں۔ شفافیت اور اچھی حکومت جیسی اصلاحات کا ذکر مذکورہ پریشانی کی وجہ ہی سے شروع ہوا۔ شفافیت پر زور دیتے ہوئے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک درحقیقت ہمیں یہ باور کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اتنے بھی سفاک نہیں ہیں۔ ہماری معاشی مشکلات کا کلیدی سبب ہماری حکمران اشرافیہ کی پھوں پھاں والے اللے تللے ہیں۔ وہ انہیں جاری رکھنے کو عالمی اداروں سے رقوم حاصل کرتے ہیں۔ صاف شفاف انداز میں لیکن ان رقوم کو سودمند اہداف پر خرچ نہیں کرتے۔
آج سے دو سال قبل کرونا کی وبا پھوٹی تو اس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں کاروبار حیات معطل کر دیا۔ بہت تیزی سے یہ خدشات پھیلنا شروع ہو گئے کہ اس کی بدولت دنیابھرکی معیشت بالآخر مفلوج ہو کر دھڑام سے گرجائے گی۔ معیشت کی سانسوں کو برقرار رکھنے کے لئے Stimulusیا امدادی رقوم کی فراہمی کاذکر چلا۔ یہ عمل ویسا ہی تھا جو آئی سی یو میں پہنچے مریض کو مشینوں کے ذریعے آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ ایسے ہی بندوبست کے تحت پاکستان کو بھی عالمی اداروں نے تقریباً 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقوم فراہم کیں۔ مقصد اس ہنگامی مدد کا یہ تھا کہ وطن عزیز میں کاروباری دھندوں کو رواں رکھنے میں آسانی ہو۔ گھروں میں کرونا کے خوف سے محصور ہوئے کم آمدنی والے طبقات اور دیہاڑی داروں میں زندہ رہنے کے لئے لازمی تصور ہوتی اشیائے صرف خریدنے کی سکت باقی رہے۔
ہمارے ہاں وہ رقوم آئے کئی مہینے گزرچکے ہیں۔ مبینہ طور پر سب پہ بالادست پارلیمان میں بیٹھے ہمارے نمائندے مگر حکومت کو مجبور نہ کر پائے کہ وہ انہیں تفصیل سے بتائے کہ عالمی اداروں سے آئی یہ رقوم کیسے خرچ ہوئی ہیں۔ ارطغرل جیسے دلاروں کی زندگی پر بنائے ڈرامے سے مسحور ہوئی قوم کے برعکس آئی ایم ایف مگر یہ معلوم کرنے کو ڈٹ گیا کہ عالمی اداروں سے کرونا کے مقابلے کے لئے جو امدادی رقوم ملیں ان کا حساب منظر عام پر لایا جائے۔ حکومت نے اس ضمن میں قومی حمیت والی اڑی دکھائی تو آئی ایم ایف نے ہمیں میسر اس رقم کی اقساط روک لیں جو پاکستان کو ستمبر 2020 تک 6 ارب ڈالر کی صورت ملناتھی۔ رکی ہوئی رقم اب ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے حصول کے لئے ہمارے مشیر خزانہ شوکت ترین صاحب سینہ پھیلاتے ہوئے واشنگٹن گئے۔ ان کی رعونت بھری چالاکی مگر کسی کام نہیں آئی۔ آئی ایم ایف نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ اگر رکی ہوئی رقم حاصل کرنا ہے تو فلاں فلاں اقدامات لینا لازمی ہے۔
مطلوبہ اقدامات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ کرونا کے مقابلے کے لئے پاکستان کوجو ا مدادی رقوم ملی ہیں ان کا حکومت پاکستان ہی کے ایک اور ادارے یعنی آڈیٹر جنرل کی جانب سے ہوا حساب لوگوں کے روبرو رکھا جائے۔ گزرے جمعہ کے روز بالآخر اس تناظر میں تیار ہوئی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے۔ اس کے مطابق وبا کے بدترین بحران کے دوران بھی 40 ارب روپے کی خطیر رقم بادی النظر میں کرپشن کی نذر ہو گئی ہے۔
مذکورہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے باوجود ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا میں اس کی بابت خاطرخواہ دہائی نہیں مچائی جا رہی ہے۔ سوئی اب بھی یہ طے کرنے پر اٹکی ہوئی ہے کہ ثاقب نثار سے منسوب آڈیو اصلی ہے یا اسے ٹوٹے جوڑ کر ہماری گمراہی کو پھیلایاگیا ہے۔ ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوپ پر چھایا ہر ذہن ساز اب فرانسک جیسے مشکل ترین ہنر کا خود کو حتمی ماہر ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ سوال اگرچہ یہ اٹھانا چاہیے تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جولائی 2018 کے انتخاب سے کئی ماہ قبل صادق اور امین ٹھہرائے غریبوں کے پرخلوص درد مند عمران خان صاحب کی زیر نگرانی چلائی حکومت میں 40 ارب روپے کی خطیر رقم کیسے اور کن لوگوں کی وجہ سے بظاہر خرد برد ہو گئی ہے۔ وہ ادارے بھی اس ضمن میں خاموش کیوں ہیں جنہوں نے اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد شریف خاندان سے رسیدیں مانگنا شروع کردی تھیں۔ پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو بالآخر مبینہ طور پر رسیدیں فراہم نہ کرنے کی وجہ سے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نا اہل قرار دے دیا گیا۔
شریف خاندان کے علاوہ اپوزیشن میں بیٹھے کئی اور سرکردہ رہ نماؤں اور ان کے چہیتے تصور ہوتے سرکاری افسر اور کاروباری افراد بھی کئی مہینوں سے احتساب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ احتسابی عمل کی زد میں آئے افراد کی ذلت ورسوائی میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کا حقیقی درد سر نہیں۔ اس رقم کا حساب بھی تو مگر لینا ہو گا جو ڈاکٹر ثانیہ نشر صاحبہ جیسی دھانسوماہر کی نگرانی میں سینکڑوں بے وسیلہ خواتین تک پہنچنا تھی۔ اس رقم کی دل دہلادینے والی مقدار کو مگر بائیو میٹرک نظام میں جگاڑ لگاکر ظالم جعلی سازوں نے اچک لیا۔ احساس پروگرام کے ذریعے جاری ہوئی خیرات سے ہوئے کھلواڑ کے باوجود تاہم حکومت اب بھی ڈٹی ہوئی ہے کہ وہ الیکٹرانک مشینوں کے استعمال سے آئندہ انتخاب کو صاف اور شفاف بنائے گی۔ غالب سے معذرت کے ساتھ کہنے کو مجبور ہوں ”دیدہ دلیری حد سے گزری۔ بندہ پرور کب تلک“ ۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر