نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ پارلیمان میں اِن ہائوس تبدیلی کے امکانات ذاتی طورپر میں نے کبھی دیکھے نہیں۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جما عتوں کے کئی سرکردہ رہ نمامگر انہیں اکثر دریافت کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ 2019کے آخری ہفتوں میں بھی ہوا تھا۔ نواز شریف صاحب جیل میں تھے۔ حراست کے دوران ان کی صحت کے بارے میں تشویش ناک خبریں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ بالآخر جیل سے لندن روانہ ہوگئے۔ آج بھی وہیں قیام پذیر ہیں۔
نواز شریف صاحب کی لندن روانگی نے اُن کے کئی حامیوں کو یہ فرض کرنے کو اُکسایا کہ "چوروں اور لٹیروں ” کے کڑے احتساب پر ڈٹی عمران حکومت نواز شریف کو میسر ہوئی سہولت سے خوش نہیں۔ اس سہولت کی ذمہ داری شہباز شریف صاحب کی مفاہمانہ ملاقاتوں کے سرتھونپی جارہی ہے۔ دریں اثناء ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوگیا۔ وہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے رخصتی سے چند ہفتے قبل آصف سعید کھوسہ صاحب نے اس کی سماعت کے دوران دھانسو ریمارکس دیتے ہوئے تھرتھلی مچادی۔ چند روز رونق لگانے کے بعد مگر انہوں نے مذکورہ معاملہ مؤثر قانون کی تیاری کے ذریعے ہمیشہ کے لئے طے کرنے کو پارلیمان بھجوادیا۔
مسلم لیگ (نون) کے کئی اراکین سرگرشیوں میں یہ کہانی پھیلاتے رہے کہ عمران حکومت مذکورہ معاملے کو طے کرنے میں حقیقی دلچسپی نہیں دکھارہی۔ اس کی جانب سے برتی مبینہ لاپرواہی”انہیں ” پسند نہیں آرہی۔ بالآخر ایک قانون مگر تیار ہوگیا اورا پوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی بھرپور حمایت سے 12منٹ کی تاریخی عجلت کے ساتھ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوربھی ہوگیا۔
دریں اثناء مولانا فضل الرحمن ایک برس کی تیاری کے بعد آزادی مارچ سمیت اسلام آباد بھی تشریف لائے تھے۔ ان کے مارچ کا نواز شریف کے نام سے وابستہ مسلم لیگ نے دل وجان سے ساتھ نہ دیا۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس کے ہوتے ہوئے اپنا "لبرل” تشخص یاد آگیا۔ مولانا جب اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے تھے تو ان سے چند اہم لوگوں کی خفیہ ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔ سرگرشیوں میں پیغام یہ پھیلایا گیا کہ مولانا صاحب کو قائل کیا جارہا ہے کہ وہ دھرنے کے ذریعے عمران حکومت کو گھر بھیجنے کے بجائے اِن ہائوس تبدیلی کا انتظار کریں۔ وہ تبدیلی مگر نمودار نہ ہوئی۔
اس کے باوجود اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے نام پر بنائے قوانین کو ایک بار پھر تاریخی عجلت میں پاس کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دو سنگین تر معاملات کے تناظر میں ریاست وحکومت کے لئے مزید مشکلات کھڑی کرنے کے بجائے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے حیران کن لچک دکھائی۔ عمران حکومت کے وزراء نے مگر کبھی اسے سراہا نہیں۔ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کھڑے ہوکر نہایت رعونت سے بلکہ طعنے دیتے رہے کہ تعاون کے بدلے اپوزیشن جماعتیں اپنے مبینہ طورپر "چور اور لٹیرے” رہ نمائوں کے لئے این آر او کی طلب گار ہیں۔ کپتان مگر اس کے لئے ہرگز رضا مند نہیں ہوں گے۔ کرپشن کے خلاف جنگ جاری رکھنے کو ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کی خاطر حکومت گنوانے کو بھی ہمہ وقت تیار۔
عمران حکومت کی بے نیازی آخر ی حدوں تک پہنچ گئی تو ستمبر 2020 میں پیپلز پارٹی کی دعوت پر اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ نواز شریف صاحب نے ویڈیو لنک کے ذریعے اس سے ایک دھماکہ خیز خطاب کیا۔ پی ڈی ایم کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا وسیع تر اتحاد بھی قائم ہوگیا۔ اس اتحاد نے ملک کے اہم شہروں میں اجتماعات کے ذریعے اسلام آباد پر مارچ کی تیاری شروع کردی۔ عوام کو نوید سنائی کہ 2021 کے آغاز سے قبل عمران حکومت کو استعفیٰ دینے کو مجبور کردیا جائے گا۔
محض تین ماہ کی قربت کے بعد مگر مذکورہ اتحاد کو پیپلز پارٹی اور اے این پی کا رویہ مشکوک نظر آنا شروع ہوگیا۔ عمران حکومت سے استعفیٰ لینے کے بجائے اپوزیشن جماعتیں مارچ کے مہینے میں سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں کے لئے اپنے جثے کے مطابق حصہ کے حصول کے لئے متحرک ہوگئیں۔ اس مرحلے کے دوران یوسف رضا گیلانی کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں اسلام آباد سے سینٹ کا رکن بھی بنوالیا گیا۔ ان کے انتخاب سے فضا یہ بنی کہ قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر بیٹھے کئی افراد عمران خان صاحب کے رویے سے خوش نہیں۔ وہ بغاوت کو بے چین ہیں۔ متوقع بغاوت کے امکانات مگر چند روز بعد ہی ہوا میں تحلیل ہونا شروع ہوگئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) بھی سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے دوران متحدہ حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام رہیں۔ صادق سنجرانی دوبارہ چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے۔ یوسف رضا گیلانی کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ ملا۔ اللہ اللہ خیر صلٰی ہوگیا۔
اکتوبر 2021 کے آغاز میں لیکن ایک اور اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی میں تاخیر نے اپوزیشن جماعتوں میں اِن ہائوس تبدیلی کی امید ایک بار پھر جگادی۔ مجھے اس کے امکانات دوبارہ نظر نہیں آئے۔ اس کالم میں اپنی کوتاہ بصری کی وجوہات تفصیل سے بیان کرتا رہا۔ بالآخر بدھ کے روز عمران حکومت نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے ایک ہی دن میں 33قوانین 18اراکین کی اکثریت دکھا کر منظور کروالئے ہیں۔ امید کررہا ہوں کہ اس کے بعد ہمیں موجودہ پارلیمان سے تبدیلی برآمد کرنے کے خواب نہیں دکھائے جائیں گے۔
۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر