نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ قومی اسمبلی کے ہال میں گیارہ بجے کے بعد ہماری پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے چنیدہ نمائندہ ں پر مشتمل ایک کمیٹی کا اجلاس ہوگا۔ اسے قومی سلامتی کمیٹی پکارا جاتا ہے۔ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین بھی اس کے رکن ہیں۔امید ہے کہ سینئر ترین دفاعی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے حکام اس کمیٹی کو حساس ترین معاملات کے بارے میںایسی تفصیلات سے آگاہ کریں گے جنہیں میرے اور آپ جیسے کمی کمین اور ریاستی امور سے غافل عوام کے روبرو رکھا نہیں جاسکتا۔
داستان شاید اس برس کی 15اگست سے شروع کرنا ہوگی۔دودہائیوں تک افغانستان کو بھرپور فوجی قوت اور بے پناہ رقوم کے استعمال سے جدید جمہوری ملک بنانے میں ناکامی کے بعد اس روز امریکہ اور اس کے اتحادی کابل ایئرپورٹ پر موجود طیاروں میں سوار ہوکر فرار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ وہ بھاگ گئے تو خلا پیدا ہوا جسے طالبان فاتحانہ انداز میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔افغانستان کا قریب ترین ہمسایہ ہوتے ہوئے ہم طالبان کو مستحکم ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔اس ضمن میں کیوں اور کیسے جیسے سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ان سوالات کے تشفی بخش جوابات غالباََ پیر کے اجلاس میں فراہم کردئیے جائیں گے۔
ابھی تک قومی سلامتی کے نام پر اراکین پارلیمان کی جو بریفنگ ہوئی ہیں ان میں عمران خان صاحب نے کبھی شرکت گوارہ نہیں کی۔اقتدار میں آنے سے قبل ہی انہیں ہمارے سپریم کورٹ نے صادق وامین قرار دیا تھا۔ان کے برعکس اپوزیشن جماعتوں کے جو سرکردہ رہ نما ان دنوں کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں ان کی کافی تعداد نیب کے تحت چلائے مقدمات کا سامنا کررہی ہے۔قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد شہباز شریف بھی ایسے ملزموں میں شامل ہیں۔عمران خان صاحب کی اصول پسند شخصیت کو سنگین مالی جرائم کے الزامات میں ملوث سیاست دانوں کے ساتھ ریاستی امور سے مشاورت کے نام پر ہوئے اجلاسوں میں بیٹھنا منافقانہ محسوس ہوتا ہے۔
وزیر اعظم صاحب کے اصولی مؤقف کو نگاہ میں رکھیں تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جن لوگوں سے عمران خان صاحب ریاست کے عمومی امور کے بارے میں بھی گفتگو کرنا پسند نہیں کرتے انہیں قومی سلامتی سے جڑے حساس معاملات کے بارے میں اعلیٰ ترین ریاستی اداروں کی جانب سے دی بریفنگ میں کیوں مدعو کیا جاتا ہے۔یہ سوال مگر شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری کو اٹھانا چاہیے۔وہ اس کے بارے میں فکر مند نہیں تو میں دو ٹکے کا صحافی اس کے بارے میں فکر مند کیوں ہوں۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر